علم اور عمل

میں جانتا ہوں نماز چھوڑنا گناہ ہے پھر بھی نماز نہیں پڑھتا۔
میں جانتا ہوں جھوٹ بولنا غلط ہے پھر بھی جھوٹ بولتا ہوں۔
سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے پھر بھی پیتا ہوں۔
لڑکیوں سے دوستی کر کے دھوکہ دینا بری بات ہے پھر بھی یہ سب کرتا ہوں۔
بڑے سے بدتمیزی کرنا اخلاقی گراوٹ ہے میں پھر بھی بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔
چوری کرنا جرم ہے، غیبت و چغلی گناہ ہیں لیکن میں پھر بھی باز نہیں آتا۔
زنا گناہ کبیرہ ہے یہ جانتے ہوئے بھی صنف نازک کی عصمت کو تار تار کرتا ہوں۔
قانون کی خلاف ورزی جرم ہے لیکن میں دو منٹ کے لیے ٹریفک سگنل پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
حقوق العباد آخرت میں معاف نہیں ہونگے پھر بھی اپنے ساتھیوں کا یا ہم وطنوں کا حق مارتا ہوں۔
ماں باپ کی نافرمانی دنیاوی و مذہبی خسارے کا موجب ہے پھر بھی والدین کے سامنے زبان کے تیر چلاتا ہوں۔
کسی کی بہن بیٹی پر بہتان طرازی یا عصمت ریزی ایک قرض ہے جو کل اپنی بہن بیٹی کے ذریعے اتارنا ہو گا پھر بھی اس گھناونی حرکت سے باز نہیں آتا۔
رشوت خوری و کرپشن کو جرم تو سمجھتا ہوں لیکن خود بنک کی لائن میں پانچ منٹ انتظار بھی نہیں کر سکتا یا گھر والوں کی طرف سے دئیے گئے سبزی کے پیسوں میں بھی گھپلا کرتا ہوں۔
قرآن مجید کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن میں مہینوں اس مقدس کتاب کو چھو کر بھی نہیں دیکھتا۔
نماز جمعہ کے لیے قرآن ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ سب کام چھوڑ دو لیکن میں پھر بھی اپنی دکان پر گاہکوں کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتا ہوں اور آخری رکعت میں بھاگ کر مسجد پہنچتا ہوں۔
میری ملازمت حلال رزق کا واحد ذریعہ ہے مگر میں ڈیوٹی کے وقت چیٹنگ میں مصروف رہتا ہوں یا فلمیں دیکھ کر وقت گزاری کرتا ہوں رہی سہی کسر فیس بک کے ٹھرک سے پوری ہو جاتی ہے اور نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ حلال رزق عطا فرما۔
ڈگری میرے پاس Oxford, UET اور NUST جیسے اداروں کی ہے لیکن تمیز اتنی بھی نہیں کہ ریڑھی پر کھڑے بزرگ سے کیسے بات کرنی ہے۔
فیس بک پر اسٹیٹس ڈالتا ہوں کہ I Miss My Teachers لیکن کلاس میں انہی اساتذہ کی غیبت کرتا ہوں ان پر طعنہ زنی کرتا ہوں ان کو تنگ کرتا ہوں۔
جانتا ہوں دھوکہ دہی اور بے ایمانی غلط ہے اسی لیے ہر بات کا الزام حکمرانوں پہ ڈالتا ہوں لیکن خود دودھ میں پانی ڈالنے کو سرخ مرچوں میں اینٹوں کا بورا ڈالنے کو ، گوشت تولتے وقت کنڈے کے نیچے لوہے کا ٹکڑا باندھنے کو، ٹرین میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کو اپنا فرض اولین گردانتا ہوں۔
آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ علم ہونے کے باوجود کم ظرفی و اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیوں؟
نماز چھوڑنا، سگریٹ نوشی، غیبت ، دھوکہ دہی ، چغل خوری ، زنا، والدین کی نافرمانی، ناپ تول میں کمی، پیشے سے غداری، چوری، جھوٹ، نماز جمعہ میں تاخیر، اور رشوت خوری کے ساتھ شراب پینے جیسے تمام کام غلط ہیں ،گناہ ہیں ، بلکہ قانوناً جرم ہیں، ہم سب جانتے ہیں اور دوسروں کو منع بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں علم ہے ان سب چیزوں کا جو اپنے والدین و اساتذہ سے حاصل ہوا۔ بہت اچھی بات ہے علم ہونا جس کے بغیر شعور کے تقاضے پورے کرنا بہت مشکل ہے لیکن کیا علم صرف معلومات کے لیے حاصل کیا جاتا ہے یا پھر دوسروں کی نظر میں خود کو اعلیٰ و ارفع ظاہر کرنے کے لیے؟ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جس علم پر عمل نہ کیا جائے وہ ناکارہ و بیکار یا بے سود ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم میں بحیثیت قوم اسی چیز کی کمی ہے کہ ہم علم حاصل کر کے اعلی عہدوں پر فائز ہو گئے، وزارتوں امارتوں کے مالک بن بیٹھے لیکن عمل ذرہ برابر بھی نہیں اور الزامات دوسروں پر۔ ۔۔ایسا کیوں ہے کہ اپنے معاملے پر ہم وکیل اور دوسروں کے معاملات میں جج بن جاتے ہیں؟
تو میرے پیارے ہم وطنو! ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم علم تو رکھتے ہیں لیکن عمل کرنے سے صرف کتراتے ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ ہمیں مسلمان ا ور پاکستانی ہونے کے علاوہ اسلامی اقدار و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو پر سکون بنانا ہو گا۔ اپنے حلقہ احباب کی اخلاقی تربیت اپنے عمل سے کرنا ہو گی۔ اچھے اور مہذب شہری بن کر اپنے محلے گاؤ ں شہر اور پیارے پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے امن کا گہوارہ بنانا ہو گا۔ ورنہ ڈگری لے کر نوکری حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہماری اصل تعلیم وہ ہے جو ہمارے اخلاق و کردار سے نظر آئے۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے بہتر ہے اپنی ذات کا موازنہ کیا جائے۔ اپنے علم پر عمل کرتے ہوئے اپنی ذات اور دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں، یہی کامیاب زندگی کے سنہری اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم ایک غیور و باشعور قوم بن سکتے ہیں لیکن ان سے دوری ہماری شناخت کو تاریخ کے گرد آلود اوراق میں ہمیشہ کے لیے گم کر دے گی۔ آخر میں مجھے اپنی اردو کی میڈم نسیم کی ایک نصیحت یاد آ گئی جو ہم سب کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ۔۔”زندگی میں کچھ ایسا ضرور کر جاؤ جس سے یہ دنیا تمھیں بعد از مرگ بھی اچھے لفظوں میں یاد کرے”۔دوستو اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے لیکن حقیقی زندگی وہی ہے جسے انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا جائے جس سے اللہ تعالی بھی خوش ہو گا اور دنیا سے بھی آپ ڈھیروں دعائیں سمیٹ کر جائینگے، اور آپ کے بعد جو بھی آپ کو یاد کرے گا اس کے دل کے ہر کونے سے آپ کے درجات کی بلندی کے لیے دعاؤں کا سفر ہمیشہ سوئے افلا ک رواں رہے گا ۔

Facebook Comments

رمیض اکبر خاں میئو
میرا پیغام محبت، حق، شعور، اور بھائی چارہ ہے جہاں تک پہنچے۔ باطن باوضو نہیں ہوتا جب تک رمیض مومن نہیں گردانتا تجھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply