تعلیمی ادارے یا کاروبار

پاکستان کے ہر شہر میں سینکڑوں غیر سرکاری اسکول ہیں جن میں تعلیم جیسی مقدس شے کو کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ وہ لوگ جنہیں اسکول کے معنی بھی نہیں معلوم اسکول کھولے بیٹھے ہیں
ایک بچے سے ہزاروں روپے ماہوار فیس کے نام پے “بھتہ” لیا جاتا ہے ایک غریب مزدور جو اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتا ہے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیس بھرتا ہے اگر بات یہاں تک ہی رہے تو سمجھا جا سکتا تھا پر آئے روز مختلف دنوں کو تہوار کے طور پے منانا اور طلبہ و طالبات کو شریک ہونا لازم قرار دینا ،نا آنے کی صورت میں جرمانہ ،یہ الگ تماشے ہیں جن کا مقصد محض کاروبار ہے ۔پھر اگر اورینج ڈے ہے تو اورینج کلر کے کپڑے لازم ہیں۔ کوئی اور ڈے ہے تب نیا لباس خریدو ۔
اب ایک مڈل کلاس بندہ،یہ کیسے برداشت کر سکتا ہےاور پھر تعلیمی معیار بھی کچھ نہیں ،بلکہ جان بوجھ کر اسکولوں کالجوں میں صرف نام کا پڑھایا جاتا ہے جس کا مقصد ٹیوشن اکیڈمیز آباد رکھنا ہے جو کہ ایک اور بڑھتا ہوا کاروبار ہے ۔۔جو ٹیچرز دن کو اسکول میں پڑھاتے ہیں شام کو وہی اکیڈمی میں پائے جاتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں ایک استاد ایک ہی اسکول وہی شاگرد وہی کتاب شام کو ایک اور جگہ پڑھائی جا رہی ہے جو اسکول میں بھی پڑھائی جا سکتی تھی اب تو بچے کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اکیڈمی جوائن کریں اور اکیڈمی بھی وہ جہاں ہم جاتے ہیں ۔۔اگر یہی تعلیم اسکول میں دی جانے لگے تو ان اکیڈمیز کا کاروبار ٹھپ ہو جائے ۔۔
میں دبئی میں جاب کرتا ہوں یہاں ہر آفس میں انڈین بیٹھے ہیں ہر جگہ انکی کرسی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں بھارت تعلیمی میدان میں ہم سے بہت آگے ہے جہاں تعلیم کو تعلیم ہی سمجھا جاتا ہے ۔۔ہمارے ہاں سرکاری اسکولوں کا حال بتانے کی ضرورت نہیں پر کچھ سرکاری اسکولوں میں بہترین نظام ہے جو کہ وہاں کے ہیڈ کی بدولت ممکن بنا ہوا ہے ہمارے گاؤں کا سرکاری اسکول جس میں مکمل نظم و ضبط قائم ہے تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔ بڑے بڑے اداروں سے کئی درجہ بہتر پڑھائی ہے ۔۔
اب ذرا پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ پے ایک نظریہاں پڑھانے والے اکثر ٹیچرز کی تنخواہ بھی ایک مسئلہ ہے جو دس بارہ ہزار سے زیادہ نہیں ۔پھر انھیں خاص تاکید کی جاتی ہے کہ لباس اچھا اور نیا ہو بن سنور کے رہنا ہے تا کہ آنے والے مہمانوں پے اچھا اثر ہو اور پھر مختلف فنکشنز کے نام پے جو ذلت اٹھانی پڑتی ہے وہ الگ چیز ہے ایسی ہی دو تین ٹیچرز سے بات ہوئی تو کہنے لگیں اتنی تنخواہ میں کیا کیا کریں ۔۔صرف اسی قوم نے دنیا میں ترقی کی جس نے تعلیم کو زیور سمجھا عزیز سمجھا محض کاغذ کے ایک ٹکرے کو حاصل کر لینا کچھ مشکل نہیں۔ مشکل ہے تو اسکا صحیح استعمال کرنا اسکی پہچان کرنا اس کی قدر کرنا ۔۔
پر افسوس میرے دیس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مزدوری کر کے پیٹ پالتا ہے ایک پڑھا لکھا شخص بےروزگاری سے تنگ آ کر ہتھیار اٹھا لیتا ہے اور کسی دن پولیس مقابلے میں مارا جاتا ہے اور ایک جاہل انسان حاکم ہے۔ جسے تعلیم سے زیادہ اپنا پیٹ بھرنے کی فکر ہے۔ تعلیم کی قدر تعلیم والا ہی جان سکتا ہے یا جسے محروم کر دیا گیا ہو ۔جس دن ہم نے تعلیم کے نام پے کاروبار کرنا چھوڑ دیا اس دن ہمارا سر بلند ہو جائے گا جسے دنیا کی کوئی طاقت جھکا نا سکے گی ۔

Facebook Comments

علی حسین
منٹو نہیں ،منٹو جیسا ہوں ،معاشرے کو کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply