فرڈینینڈ ڈی ساسیور کا لانگ اور پیرول ۔۔۔ادریس آزاد

فرڈینینڈ ڈی ساسیور کی وفات کے بعد اس کے شاگردوں نے اُس کے نوٹس کو جمع کرکے ایک کتاب مرتب کی جس کانام ہے، ’’کورس اِن جنرل لِنگوسٹکس‘‘۔

اس کتاب نے لسانیات کی دنیا میں انقلاب برپاکردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ساسیور کو بابائے جدیدلسانیات مانا جاتاہے۔ انیس سو سولہ میں شائع ہونے والی اس کتاب میں لسانیات کو پہلی بار زبان کی سائنس کے طور پر دریافت کیا جاسکتاہے۔ ساسیور کی لِنگوسٹکس میں دو اصطلاحات کی بڑی اہمیت ہے۔

۱۔ لانگ (یا لینگ)
۲۔ پیرول

ساسیور خود شطرنج کی مثال دیتے ہوئے کہتاہے کہ لانگ شطرنج کے قوانین ہیں جبکہ پیرول کسی شطرنج کھیلنے والی کی گیم یا اُس کی چلی ہوئی چالیں ہیں۔

ہم اردو بولنے والے اتفاقی خوش نصیبی سے قدرے زیادہ خوبصورت اصطلاحات کے ذریعے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم لانگ کو ’’زبان‘‘ اور پیرول کو ’’بولی‘‘ کہہ کر شطرنج کے قوانین اور کھلاڑی کی چالوں کا فرق جان سکتے ہیں۔

زبان (لانگ) کیا ہے؟ وہ جو سب بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ قوانین کا ایک مجموعہ ہے۔اگر ہم اُن قوانین سے واقف نہیں ہونگے تو ہم کسی بھی بات کرنے والے کی بات نہیں سمجھ سکیں گے۔ اس کے مقابلے میں پیرول کسی بولنے والے کی بولی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ لفظ، اُستاد کے معنی ہیں پڑھانے والا۔ لیکن کیا واقعی ’’اُستاد‘‘ کے معنی ہیں پڑھانے والا؟ استاد کے معنی تو مستری بھی ہیں، ڈرائیوربھی ہیں، چالاک آدمی بھی ہیں، بدمعاش بھی ہیں۔ تو پھر یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ استاد کے اصل معنی کیا ہیں؟ یہ فیصلہ پیرول کا کام ہے۔ پیرول چونکہ بولی ہے اور کسی ایک فرد کی زبان سے نکلی یا ہاتھ سے لکھی ہوئی بولی ہے اس لیے وہی اکیلا شخص ہی بتاسکتاہے کہ استاد کے کیا معنی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص لکھتاہے،

’’ناصرشاہ صاحب میرے استاد ہیں‘‘

دوسرا شخص لکھتاہے،

’’یار! تم بڑے استاد آدمی ہو‘‘

تیسرا شخص لکھتاہے،

’’وہ بچہ خود استادوں کا استاد تھا‘‘

ہر ایک جملہ کسی ایک فرد نے بولا ہے۔ یہ ہوئی ’’بولی‘‘۔ لیکن لفظ استاد خود ’’زبان‘‘ یعنی لانگ کا حصہ ہے اور ایک سماجی آبادی اس لفظ کو خوب اچھی طرح پہچانتی ہے۔ وہ جب بھی چاہتی ہے اس لفظ کو بغیر کسی جھجک کے استعمال کرسکتی ہے ۔

چلیے! ساسیور کی بات کو مزید آسان کرکے سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلے لفظ اُستاد کو ہی توڑدیں۔ یعنی ’’اُس‘‘ اور ’’تاد‘‘ کو الگ الگ کردیں۔ اب یہ دوٹکڑے ہیں جنہیں انگریزی میں فونیم (Phoneme) کا جاتاہے جس کا اردو ترجمہ ہوگا، ’’صوتیہ‘‘۔ خیر! ہم لفظ استاد کے اِن دونوں ٹکڑوں کو جب دوبارہ جوڑتےہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک افقی (Horizontal) لائن بنا رہاہے۔یعنی پہلے ’’اُس‘‘ لکھنا یا بولنا پڑیگا اور پھر’’تاد‘‘۔

یہ ایک لائن میں سفرہوگا۔ اگر لفظ استاد کو کسی جملے میں استعمال کریں تب بھی ایک افقی لائن ہی نمودار ہوتی چلی جائے گی۔ مثلاً ’’استاد بچوں کو سبق پڑھا رہاہے‘‘۔ اس جملے میں تمام الفاظ ایک سطر، ایک لائن میں لکھے یا بولے جارہے ہیں۔ چنانچہ پیرول کی پہچان یہ ہے کہ اس میں زبان کے الفاظ ایک افقی لائن بناتے ہیں۔

اگرچہ چینی زبان لکھنے میں عمودی ہے لیکن بولنے میں پھر بھی وہ ساسیور کے قانون سے باہر نہیں رہ سکتی۔ بولتے ہوئے ایک لینئر حرکت اس میں صاف دیکھی جاسکتی ہے جسے ہم چینی زبان کی افقی سرگرمی کہیں گے۔

اب اس کے برعکس دیکھیں۔ اگر ہمیں یہ بتانا ہے کہ لفظ استاد کتنے معنوں میں بولاجاسکتاہے تو افقی کی بجائے عمودی لائن بنائینگے۔مثلاً:

استاد (برائے ٹیچر)

استاد(برائے ڈرائیور)

استاد(برائے مولوی)

استاد(برائے بدمعاش)

استاد (چالاک آدمی)

ہمیں کالم بنانا پڑینگے۔ لانگ میں عمودی کالم بناکر جائزہ لینا پڑتاہے جبکہ پیرول میں افقی سطروں کی صورت بولی ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے اور معنی فرد سے فرد تک مختلف ہونے کے باوجود پوری سماجی آبادی کو سمجھ آتے چلے جاتے ہیں۔ہم انگریزی میں گلاب کے پھول کو ’’روز‘‘(Rose) کہتے ہیں۔

اگر اکیلا لفظ روز (Rose) بولا جائے تو ہم کیسے بتاسکتےہیں کہ یہ گلاب کے پھول کا ذکر ہے۔اکیلا روز تو رائز (Rise)کی دوسری فارم بھی ہوسکتاہے جو ’’اُٹھنے‘‘ کے فعل کے زمانۂ ماضی کا ذکر ہے۔

لیکن پوری سماجی آبادی اس بات سے واقف ہے کہ روز ایک لفظ ہے اور یہ ہمارا اپنا لفظ ہے۔ اُن کا اپنا لفظ ہونے کے باوجود جب تک وہ خود اسے بولینگے نہیں یا کسی سے سنیں گے نہیں تب تک وہ یہ فیصلہ کرہی نہیں سکتے کہ یہ کون سا روز ہے؟ پھول والا یا اُٹھ کھڑے ہونے والا؟ وہ جب بھی روز کو ٹھیک سے سمجھیں گے تب یقیناً روز پیرول کی افقی لائن پر کہیں نہ کہیں موجود ہوگا۔

چنانچہ زبان (لانگ) شطرنج کے قوانین کی طرح ہے جبکہ بولی(پیرول) کھلاڑی کی چالوں کی طرح سے۔ زبان کے قوانین ہوتے ہیں۔ ان قوانین سے واقفیت ہی سنے ہوئے الفاظ میں معنی پیدا کرتی ہے۔ ان زبان کے قوانین سے ماورا ہوکر لکھے یا بولے ہوئے الفاظ پڑھے یا سنے جائیں تو وہ فقط مہمل الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتے۔

یوں گویا زبان اجتماعی طور پر پوری سماجی آبادی کے ذہن میں موضوعی طور پر ازخود موجود رہتی ہے۔ اورجس طرح شطرنج سیکھی جاتی ہے بالکل اسی طرح زبان بھی سیکھی جاتی ہے۔

لیکن جس طرح اعلیٰ شطرنج کی چالیں سیکھی نہیں جاتیں بلکہ وقت کے ساتھ انسانی ذہن ان کو خود تخلیق کرسکتاہے بالکل اسی طرح بولی سیکھی نہیں جاسکتی بلکہ سیکھی ہوئی زبان کے بعد بولی ہوئی بولی کا تسلسل اور تواتر وقت کے ساتھ تمام علامات کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرنا سکھادیتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply