کافر علم۔۔علی خان

اس موضوع پر لکھنے سے پہلے بہت سوچنا پڑا لیکن پھر پچھلے دنوں ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں “تحریک لبیک” کے بانی  مطالبہ کر رہے تھے کہ  “قادیانی عبدالسلام” کی کرسی (Abdul salam Chair in Physics ) کو فی الفور تمام یونیورسیٹیز سے اٹھایا جائے اور اس کی جگہ بزرگان دین اور بہادر سلاطین دین کی کرسیاں ہونی چاہییں ۔

یہ ویڈیو ویسے تو مضحکہ خیز تھی کیوں کہ ایسی کوئی کرسی وجود ہی نہیں رکھتی بلکہ یہ تو ایک اعزازی سکالرشپ سوسائٹی کا نام ہے جو فزکس اور میتھمیٹکس میں امتیازی کارکردگی پر طالبعلم کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک تشویش ناک رویہ بھی ہے جہاں حقائق کی خبر رکھے بنا ہی کسی چیز کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک نہایت ہی منفی رویہ ہے اور عام عوام اور طالب علموں کو ان تعلیمی اداروں سے متنفر کیا جا رہا ہے جو کہ   انتہائی افسوس کی بات ہے ۔

ڈاکٹر عبد السلام کو اپنے دو ساتھی امریکی سائنسدانوں شیلڈن لی گلاشو اورسٹیون وینبرگ کے ساتھ مشترکہ طور پر برقی نحیف تفاعل کے نظریہ (Electro weak Theory) کو منصوب کرنے پر1979 میں طبعیات کا نوبل پرائز دیا گیا۔ ڈاکٹر عبد السلام نے نظری طبعیات اور تیسری دنیا کی تعلیمی اور سائنسی مسائل کے حوالے سے 300 سے زیادہ مقالات تحریر کیے جن میں سے چند کتابی مجموعوں کی صورت میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ آپ نے سن 1961 میں Space and Upper Atmosphere Research Commission (SUPARCO)  کا قیام عمل میں لایا اور اس کے پہلے چئیرمین منتخب ہوئے۔ آپ کی پاکستان میں عملی خدمات کا احاطہ یہاں ممکن نہیں

لیکن پاکستان میں ان کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام بے شک قادیانی تھے لیکن وہ پاکستانی بھی تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جب بھی پاکستان میں کچھ کرنا چاہا حکومت پاکستان میں موجود مخصوص سوچ کے حامل لوگوں نے ہمیشہ رکاوٹ ڈالی۔ یہی وجہ ہے کہ نوبل پرائز سے ملنے والی رقم جوکہ وہ پاکستان میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ بنانا چاہتے تھے نہ بن سکا اور یہ شرف اٹلی کو حاصل ہو گیا اور سن 1964 میں “International Center  for Theoretical Physics” (ICTP) کا ادارہ وجود میں آیا اور ڈاکٹر عبد السلام اس کے پہلے ڈائریکٹر بنے۔ دنیا میں اپنی نوعیت کا یہ واحد ادارہ ہے۔ اس ادارے میں دنیا بھر کے طبعیات کے سائنس دان نئے نظریات پر اپنی ریسرچ کرتے ہیں اور دنیا بھر سے طلبہ یہاں اعلی تعلیم کے لئے آتے ہیں ۔ ICTP میں ہر سال ادارے میں نمایاں کارکردگی پر ممبران کو “The Spirit of Abdus Salam Award” دیا جاتا ہے۔

سن 1974 میں “احمدیوں اور قادیانیوں” کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد آپ دلبرداشتہ ہوکر پاکستان چھوڑ گئے اور 1996 میں انگلیڈ میں وفات پائی۔ سن 1997 میں ICTP کے سائنس دانوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے اعزاز میں انسٹیٹیوٹ کا نام تبدیل کر کے “The Abdul Salam International Center for Theoretical Physics” رکھ دیا۔ حکومت پاکستان نے سن 1998 میں ڈاکٹر عبد السلام کی تصویری ٹکٹ شائع کی۔ ڈاکٹر اشفاق احمد آپ کے قریبی دوست تھے اور ساتھ ہی بہت سے سرکاری عہدوں بھی پر فائز رہے۔ آپ ہی کے مشورے پر فیڈرل گورنمنٹ نے 1999 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں “Salam Chair in Physics” کا آغاز کیا۔ آج تک اس پروگرام کے تحت ہونے والے کاموں میں 150 ریسرچ پیپر، 12 پی ایچ ڈی، 35 ایم فل شامل ہیں اور اس کے علاوہ سینکڑوں طالب علموں کو اعلی تعلیم کے لئے ماہانہ وظائف جاری کئے جاتے ہیں ۔ یہ ادارہ دنیا کی اعلی یونیورسیٹیز میں اپنے طالب علموں کو ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لئے بھی بھیجتا ہے۔ 2009 میں آپ کا اصلی نوبل پرائز اٹلی سے پاکستان لایا گیا اور اسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں رکھا گیا ہے۔ 2016 میں قائداعظم یونیورسٹی کراچی کے فزکس ڈیپاٹمنٹ کو آپ کے نام سے منسوب کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ تمام لوگ جو یہ تک نہیں جانتے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے کیا کارنامہ سر انجام دیا تھا آج وہ ان کے نام سے منسوب اداروں پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔ بے شک ڈاکٹر عبدالسلام  قادیانی اور کافر ہیں لیکن وہ ایک قابل فخر پاکستانی بھی تھے اور ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہم کافر کی بنائی گئی مصنوعات تو استعمال کر لیتے ہیں لیکن پاکستانی کافر کو پاکستانی ہونے کی عزت دینے سے بھی کتراتے ہیں. علم کی یہ ناقدری پہلے ہی ہمیں ترقی یافتہ قوموں سے بہت پیچھے لے گئی ہے۔

Facebook Comments

Ali Khan
ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار ۔۔ حستجو جو کرے وہ چھوئے آسمان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”کافر علم۔۔علی خان

  1. جہالت سے بھرپور تحریر ہے، ان صاحب کو یہی نہیں پتہ کہ قادیانی اصل میں ہیں کون،محض کافر نہیں بلکہ اسلام کے غدار ہیں

  2. بہت ہی بہترین تحریر ہے ۔۔ ہمارے معاشرے کی مذہبی شدت پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا

  3. بھائی صاحب آپ کی آدھی بات ٹھیک ہے لیکن ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔ یہ بات تو میں بھی اگر اپنے گھر میں کروں تو نکالا جاوں

  4. آپ کی بات بلکل بجا ہے ۔۔ پتہ نہیں کیسے کیسے جاہل لوگ ہیں ہمارے پاس ۔۔۔ بس علم کی مخالفت تو ہمارا قومی بیانہ بن چکا ہے ۔۔۔ واقعی جب ہم ہندوں اور عیسائیوں کی بنی چیزیں استعمال کر سکتے ہیں ۔۔۔ تو اپنے پاکستانی قادیانیوں کو اپنا کیوں نہیں کہ سکتے ۔۔۔

  5. قادیانی نہ ہو گئے جیسے جن ہو گئے ۔۔ ہم بس ڈرتے ہی رہیں ان سے ۔۔۔ کیوں یہ ایسا ہو ہم ساتھ رہیں ۔۔۔ ساتھ کام کریں ۔۔ اور پھر بھی اپنے عقیدے پر قائم رہیں ۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اسلام کو پاکستان میں ہمیشہ ہی خطرہ ہے ۔۔۔ قائداعظم نے جب ملک بنایا تھا تو اسے اسلام کا قلعہ کہا تھا ۔۔۔ لیکن ساری کائِنات میں اسلام کو خطرہ صرف اسی قلعے میں ہے ۔۔۔ مطلب ۔ حد ہے اور بے حد ہے ۔۔۔۔

  6. اور آپ لوگوں نے بھی قسم کھائی ہے کہ کچھ ایجاد نہیں کرنا خود
    ساری زندگی کافروں پر ہی انحصار کرنا ہے
    ڈاکٹر عبد السلام سے پہلے اور بعد میں پاکستان میں لاکھوں سیکولر لبرل مسلمانوں نے سائنس پڑھی مگر ایک بھی نوبل پرائز نہیں لے سکا
    جبکہ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں کئی کئی گاڑیاں ہیں ملکوں کے سفر کرتے ہیں ، اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر مولویوں کو گالیاں دیتے ہیں
    مگر کچھ ایجاد کرتے ہوئے موت پڑتی ہیں ان کو

Leave a Reply