بلاسفیمی کا قانون اور فوری اقدامات

مشال خان کا بہیمانہ قتل، ہمارے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ گیا ہے۔ خیبر سے کراچی، گلگت سے مظفرآباد اور کوئٹہ سے لاہور تک ہر وہ شخص، خواہ وہ روایتی مذہبی ہو یا ماڈرن، جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے صدمے میں آ گیا۔ اب جب کے ہر گزرتا دن مشال کی بے گناہی کو ثابت کرتا چلا جا رھا ہے، آپکو فقط چند دہشت گردی کے نظریاتی حمایتیوں کے سوا شاید ہی کوئی اسکی بہیمانہ موت کا سوگ مناتے نظر نا آئے۔ یہ اب ریاست کا کام ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ایسے دہشت گرد حمایتیوں کا بھی کوئی علاج دھونڈے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے “بلاسفیمی لا” پر بھی فورا سوال اٹھ کھڑے ہوے ہیں۔
مجھے ماں پر کبھی کبھی ترس آتا ہے جو ہر مضمون کے بعد مجھے ایسی نظروں سے دیکھتی ہیں جیسے آخری بار دیکھ رہی ہوں، ہر ہونے والے حادثے کے بعد دھیمے لہجے میں “اتنا صاف نا لکھا کر” کا مشورہ دیتے ہوے مجھ پر پڑھ پڑھ کر پھونکیں مارتی ہیں۔ میں جانتا ہوں آج کے مضمون کے بعد بھی کئی لوگ ناراض ہوں گے، حیران ہوں گے، سب و شتم کا نشانہ بنائیں گے۔ مگر بولنا تو ہو گا، جسے حق سمجھوں اگر اسے بولتے ڈروں تو پھر عطا کئیے گئے قلم کی ناشکری ہے۔
تو صاحبو، “پاکستان میں بلاسفیمی لا کا ہونا اشد ضروری ہے۔” یہ ہمیشہ سے بطور ایک وکیل میرا ماننا رھا ہے اور اب تو مزید شدت سے اس پر یقین ہو چکا ہے۔ میرے بہت سے دوست جو مغرب میں رہتے ہیں یا پاکستان میں رہتے ہوے مغرب میں رہتے ہیں، میرے اس خیال سے چیں بہ چیں ہو جاتے ہیں۔ مگر، بطور وکیل اس قانون میں موجود تمام کمزوریوں اور “لوپ ہولز ” سے واقفیت کے باوجود، میں بلاسفیمی لا کے حق میں ہوں۔
پاکستانی معاشرہ ابھی شعور کی اس منزل پر پہنچا ہی نہیں جہاں اسے مکمل آزادی اظہار نصیب ہو جائے۔ مغرب نے بھی یہ آزادی اظہار فقط مذہب تک ہی رکھی کیونکہ معاشرہ چرچ کی شدت پسندی کے خلاف بغاوت سے گزرا تھا۔ ورنہ تو آج بھی برطانیہ ہی میں آزادی اظہار مجھے کئی معاملوں میں بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ “آزادی اظہار” اور “آزادی آزار” کا فرق بحرحال پاکستان جیسے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستانی معاشرے(بلکہ پورے برصغیر) میں مذہب اس قدر گندھا ہوا ہے کہ مذہب کو منہا کر کے قوانین کا نفاذ فقط دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ قانون کی ایک اصلاح “بیڈ لا” ہے، یعنی ایسا قانون جس کا نفاذ بوجوہ ممکن نا ہو۔ تو ایسے قوانین پاکستانی معاشرے میں فقط بیڈ لا ہی بنیں گے۔ اسکے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے شدت پسند معاشرے میں ایک اچھا بلاسفیمی کا قانون دراصل کسی مظلوم کی جان بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ ورنہ یہاں گلی گلی میں عدالتیں لگیں گی اور “شہدا کے مزار” بنیں گے۔ اور اس ظالم معاشرے میں فیصلہ حق نہیں جنازے کا سائز کرتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بلاسفیمی لاز مکمل طور پر ناکام ہیں۔ مجرم کو سزا دینے میں بھی اور مظلوم کی بچت میں بھی۔ یہاں ذاتی دشمنیاں توہین اور گستاخی کا الزام لگا کر نکالی جاتی ہیں۔ یہاں مظلوم جو اس الزام کا نشانہ بنا ہو انصاف نہیں پا سکتا کہ وکیل قتل ہو جاتے ہیں اور جج فیصلہ دیتے ہوے ڈرتے ہیں۔ میرے ہی ایک انکل جج نے رمشا مسیح کے فیصلے کی جو سزا بھگتی میں جانتا ہوں۔ سست اور خوف کے شکار عدالتی نظام میں اس قانون کے تحت انصاف ممکن ہی نہیں رھا۔ سو ضرورت ہے کہ فورا اس قانون میں بہتری پیدا کی جائے۔ میرے خیال میں درجہ ذیل نکات بہت اہم ہوں گے۔ (مفت میں بطور وکیل میں اتنا ہی قانونی مشورہ دے سکتا ہوں، ورنہ پورا ایکٹ بھی لکھ کر دے سکتا ہوں)۔
1- فوری طور پر ایک مکمل بلاسفیمی ایکٹ بنایا جائے اور تمام قوانین کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔
2- بلاسفیمی کے ٹرائل کیلیے خصوصی عدالت بنائی جائے جو وڈیو ٹرائل کرے۔ ضروری ہو تو وکلا اور جج کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جائے۔
۳- تفتیش ڈی آئی جی لیول کے افسر سے کرائی جائے اور مکمل فرانزک سپورٹ استعمال کی جائے۔ تفتیش مکمل کر کے تیس دن میں چالان پیش کیا جائے۔
4-عدالت پابند ہو کہ نوے دن کے اندر اندر اس کا فیصلہ کرے۔ فیصلہ نا کر پانے پر کیس کو عدالت عالیہ میں منتقل کر دیا جائے۔
5- “انٹیرم اپلیکیشنز” پر مکمل پابندی ہو۔
6- اپیل کا تعداد کم کی جائے اور اسپیشل بنچ اپیل کا فیصلہ بھی نوے دن کے اندر دے۔
7- اگر ملزم اپنی گستاخی سے مکر جائے، معافی مانگ لے تو فقہ حنفی کو فالو کیا جائے۔ لیکن اگر یہ اس ملزم کی گستاخی کا پہلا موقع ہو۔
8۔ عادی مجرم کی معافی قبول نا کی جائے۔
۹-ایسے لوگ جو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد یا پیجز کے پھیلاؤ میں ملوث ہوں، انکو عادی مجرم تصور کیا جائے کیونکہ انکی گستاخی فوری اشتعال یا غلطی کا نتیجہ نہیں ہے۔
۱۰۔ ملزم کا جرم ثابت ہونے اور اپیل رائیٹ ایگزاسٹ ہونے پر اسکی سزا پر نوے دن کے اندر اندر عمل درآمد کیا جائے۔
۱۱- اگر الزام لگانے والا جھوٹا ثابت ہو تو اسے کم از کم چودہ سال کی سزا سنائی جائے۔ اس کے مقدمے کا فیصلہ بھی اوپر بیان کردہ پروسیجر کے تحت کیا جائے۔ اسکے علاوہ آئیندہ کسی بھی معاملے میں اسکی گواہی یا سرکاری نوکری پر پابندی لگا دی جائے۔
۱2۔ سوشل میڈیا پر کسی کے خلاف الزام کو پھیلانے اور لوگوں کو اکسانے والے لوگوں کو بھی شق ۱۱ کے تحت سزا دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صاحبو میں جانتا ہوں یہ بارہ آرٹیکل بہت سے دوستوں کو شاید پسند نا آئیں۔ لیکن یقین کیجیے کہ ہمارا معاشرہ شدت پسندی، الزام تراشی، مذہب فروشی، جذباتی بلیک میلنگ اور تشدد کے جس مقام پر پہنچ چکا ہے اور سوشل میڈیا کا ان معاملات میں جس قدر منفی استعمال کیا جا رھا ہے، اگر ہم نے یہ قانون سازی نا کی تو انارکی کا سامنا کریں گے اور شاید ہر تیسرے گھر سے کوئی نا کوئی مشال مظلوم موت کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ نا کرے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply