مشعل، ایک اور محسن کی موت

آج دل بہت دُکھی ہے۔ اس بات پہ نہیں کہ مولویوں نے توہین کے الزام پہ ایک بے گناہ کو قتل کیا۔ وہ یہ کام کرتے آئے ہیں ہم سہتے آئے ہیں اور روتے روتے اب تو آنسو بھی خشک ہیں۔
ہم تو عادی ہوچکے تھے یہ رونا اپنا مقدر ہی سمجھ لیا تھا۔ لیکن آج خنجر اس طرف سے لگا ہے کہ یُو ٹو بروُٹس والی بات ہوگئی۔
مشال خان کیا توہین کا مرتکب تھا؟ اس بات کو چھوڑیے کہ وہ خدا پہ ایمان رکھتا تھا یا نہیں یہ اس کا شخصی معاملہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نے کیا کسی کے عقیدہ کی توہین کی یا نہیں؟؟
علی الصبح اس کی وال کا بغور جائزہ لیا اور ایسی کوئی بات نہ ملی۔ ہاں ایک پرانی پوسٹ میں اس نے کہا کہ میرے نام پہ جعلی آئی ڈی بنا لی گئی ہے اور میرے نام سے الٹی سیدھی پوسٹیں کی جارہی ہی جس میں میرے ہی ساتھی ملوث ہیں۔ یہ محض اطلاع تھی۔ اس نے کسی پہ فرد جرم بھی عائد نہ کی صرف سب کو بتا دیا۔
اس کا جرم محض یہ تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور سٹوڈنٹس یونین کے گندے گٹھ جوڑ پہ شکایت کرتا تھا۔
ہاں وہ سوشلسٹ تھا، برابری پہ یقین رکھنا، سسٹم کو کرپشن سے پاک کرنا اس کا یقین تھا۔ لیکن یہ جرم تو نہ تھا یہ اصول اور حق کی آواز ہے۔
اس کا جرم محض یہ تھا کہ کرپشن کے خلاف اس نے آواز اٹھائی اور میڈیا کو بتایا
لیکن خود اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل؟ محض اس بات پہ کہ معاشی مفادات حق گوئی سے ٹکرا رہے ہیں؟؟ یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔
وہ کتنا چیخا ہوگا؟
اس نے کتنا سمجھانے کی کوشش کی ہوگی ان طلبہ کو کہ میں تو تمہارے حقوق کے لئے آواز بلند کررہا تھا مجھے مت مارو، مجھے مت قتل کرو، میں چلا گیا تو تمہارے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔ لیکن عین انہی لوگوں نے اس کو قتل کیا جن کے لیے وہ آواز بلند کررہا تھا۔
مُردوں کے جلوس میں زندوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہوتا۔ ہم عقیدت پرست لوگ ہیں
اس کا جُرم محض یہ تھا کہ اپنی ہی یونیورسٹی اور سٹوڈنٹ تنظیم کی مافیا کے خلاف آواز بلند کی اے این پی اور پشتون ایس ایف والوں کے خلاف اور قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے فُٹ پرنٹس کا چھپایا جانا خود دیکھ لیا مزید کیا درکار؟؟
لیکن دوطرفہ دکھ ہے۔ ایک تو دکھ یہ کہ اہل مذہب نے مذہب کو اتنا ہی ہلکا کردیا کہ اس کا نام لے کے اس کے مخالف بھی قتل کردیں اور وہ اس کی صفائیاں خود دیتے پھریں اور قتل کے جواز بھی خود ہی ڈھونڈ کے دیں؟
اور قوم پرست اتنے گر گئے کہ مخالف کا جواز ڈھونڈیں؟
ژاک دریدا یاد آتا ہے یا کارلٹن ہیز کہ مذہبی سیاست اور قوم پرستی کی سیاست میں سرِ مو فرق نہیں۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply