رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی

پلی بارگین

کیا آپ نے چوری کی ہے؟
کیا ملکی خزانہ لوٹا ہے؟
لیکن یہ چوری ہزاروں،لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں ہے؟
پھر فکر کاہے کی۔۔۔
پلی بارگین ہے نا۔۔
جو آپکے غیر قانونی اثاثوں کو دے پورا تحفظ
آئیے نیب میں تشریف لائیے
دو چار فیصد رقم اپنے ساتھ لے آئیے اور نیب سے باقی پیسوں کے لئے کلین چِٹ لے جائیے۔۔

یہ ہے وہ نیا اشتہار جو حکومتِ پاکستان کو بلا کسی تاخیر اخبار، ٹی وی، سوشل میڈیا اور کیبل وغیرہ پہ فوری نشر کر دینا چاہئیے تاکہ ہمارے وی آئ پیز بے جا زحمت سے بچ سکیں۔

پلی بارگین۔ اکیسویں صدی میں ایک پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ہوتے ہوئے ایک اسلامی جمہوری ریاست میں ایسا کالا قانون۔
اس قانون کے نفاذ کا فائدہ کس کو بیوروکریٹس، پارلیمینٹ کے ممبرز، وزراء،مشیروں کو۔ کون سا محکمہ ہے جس کا کوئی نہ کوئی افسر یا ممبر نیب کی فہرست میں نہیں اور اس قانون سے جلد یا بدیر فائدہ نہیں اٹھانے والا۔

ملک میں ایک آئین ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کا ضامن ہے۔ مگر اب یہ آپ کی قسمت ہے کہ اس ملک میں آپ کس درجے کے شہری ہیں۔ وی آئی پی شہری، دوسرے درجے یا تیسرے درجے کے شہری۔
اگر تو آپ وی آئی پی ہیں تو بس یہ ملک آپ کی جنت ہے۔ ملک کی دولت اور اثاثوں پہ آپ کاپورا پورا حق ہے۔ کرپشن کریں خزانہ لوٹیں کسی مائی کے لعل کی جرأت نہیں کہ آپ سے سوال کرے۔
اگردوسرے درجے کے شہری ہیں سوچنا جانتے ہیں اور تھوڑا بہت اپنے حقوق کے لئیے آواز بھی بلند کرسکتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔
آپ کا منہ بند کرنے کے لئے ایک کیا کئی قانون ہیں۔ آپ کراچی کے شہری ہیں ذرا فکس اٹ کا نعرہ بلند تو کریں اگر آپ کو جیل کی ہوا نہ کھلادی تو بات کیجئیے گا۔ چلیں بڑا شور ڈالا، دوسرے درجے کے شہریوں نے کرپشن کرپشن کا تو کوئی بات نہیں۔ مل کے بیٹھے یہ وی آئی پی اور بن گیا نیب کے نام کا ادارہ۔
چلیں جی نیب اب بڑے بڑے مگر مچھ پکڑ لائی۔ قوم واہ واہ کرتی جھوم اُٹھی۔ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی بن آئی۔ رپورٹ پہ رپورٹ کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈل اور قوم کے منہ میں یہ لالی پاپ پکڑا کے تھوڑے دن بعد ہوگئ پلی بارگین ۔
بڑے بڑے مگر مچھوں کہ منہ سے لی گئ ڈھائی فیصد زکوٰۃ اور قانون گیا تیل لینے ۔
جی ہاں مشتاق رئیسانی کے اربوں روپے کی برآمدگی کا کیس ابھی زیادہ دن پرانا نہیں۔ عوام نے انہیں بنایا سیکرٹری خزانہ اور وہ بن بیٹھے مالکِ خزانہ۔ جب نیب کا چھاپہ پڑا تو خزانہ کا چھوٹا سا حصہ بر آمد ہوا ان کے گھر سے یہی کوئی 65 کروڑ 32 لاکھ روپے کا چھوٹا سا خزانہ کیوں کے خُرد بُرد کا الزام تھا اندازًا کوئی چالیس ارب کا۔
موصوف نے کئ جائیدادیں نیب کے حوالے بھی کیں جن کی مالیت تقریباً 76 کروڑ روپے ہے، ملزم باقی 11 جائیدادیں پہلے ہی سرنڈر کر چکا ہے،ہیرے، جواہرات اور 3 ہزار 300 گرام سونا اس سب کے علاوہ ہے۔
تو جناب یہ تھا احوال ایک۔ غریب ملک کے غریب صوبے کے سیکریٹری خزانہ کا ۔ ان کے مشیرِ خزانہ خالد لانگو بھی اربوں سے کم کی کرپشن میں ملوث ہونا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
تو بات اگر پہنچے اس سے بھی اوپر والوں تک تو اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
لیکن جناب یہ تو صرف تمہید ہی تھی بات تو اب شروع ہوئی ہے جب قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے کے رہا ہونے کی خبریں گردش میں ہیں وہ بھی باقاعدہ قانونی طریقے سے ۔رئیسانی صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں سرخیاں لگ چکیں لیکن ملزم نے لگائی پلی بارگین کی آفر جو نیب نے کی سر کے بَل قبول ۔
اور اب ہونے جارہا ہے ایک کمال کہ رئیسانی دو تین ارب کے عوض ہوجائیں گے باعزت رہا ۔

کہاں ہیں جناب اسلامی نظریاتی کونسل، اور
کہاں ہیں وہ نام نہاد اسلامی جماعتوں کے بانی۔ کیا سب کے ہاتھ دستانوں میں چھپے ہیں کہ ہم اپنا لہو تلاش نہ کرسکیں یا سب ہیں اندر ایک ہی حمام میں۔ قانونی، اخلاقی یا اسلامی کوئی تو جواز لائیں ان باعزت لٹیروں کو باعزت بری کرنے کا۔ ریاست ہوگی ماں کے جیسی کا نعرہ لگانے والے کہاں ہیں جو کرروڑوں روپے ان قومی دولت کے لٹیروں سے فیس کے نام پہ وصول کرکے ان کی عدالتوں میں پیروی کرتے ہیں۔ لگتا ہے ریاست بھی بس ان لٹیروں کی ماں ہے جنہیں ہر جگہ ماں نے سایۂ عافیت دے رکھا ہے۔

اور بات رئیسانی پہ ہی کیا موقوف یہاں تو سندھ حکومت کی ایک بڑی مشہور خاتون مشیر پہ بھی سوال اُٹھ رہا ہے کہ نیب سے پلی بارگین کے باوجود وہ حکومت مشیر کیسے رہیں اور کس
طرح ملکی خزانے سے مراعات وصول کرتیں رہیں۔

لیکن کیا کیا جائے کہ اس ملک کے تمام قوانین اب تیسرے درجے کے عوام کے لئے ہیں جو بےگناہ سالوں تک جیل میں پڑے رہتے ہیں اور ان کی شنوائی تک نہیں ہوتی۔ حتی کے آپ بے گناہ سولی پہ بھی چڑھا دئیے جائیں تو کوئ بڑی بات نہیں کیونکہ آپ پہلے درجے کے نہیں اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ آپ ٹریفک کا سگنل بھی توڑ دیں تو معافی نہیں۔ اگر اسٹریٹ کرائم کرتے پکڑے جائیں تو عوام کو پورا حق ہے کہ آپ کو مار مار کر زندہ جلا دے۔
سارے قوانین کی پاسداری بھی آپ نے کرنی اور سزائیں بھی آپکے لئے البتہ قوانین بنانے والے یعنی اشرافیہ اس ملک میں بالکل محفوظ۔ جناب نیب کا ادارہ تو ہے ہی کرپٹ بچاؤ اور کرپشن بچاؤ۔ سوال کرو تو کہا جاتا ہےکےنیب کے افسران کی جان کو خطرہ ہے نیب والوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں تو جناب جب احتساب کرنے والا خوف کی بات کرے گا تو اس ملک میں کس کا احتساب ممکن ہے۔
بمطابق نیب کے دئیے گئے اعدادوشمار کہ پچھلے سولہ برسوں میں کوئ 285 افراد نے پلی بارگین کے تحت پانچ ارب سے زائد رقم کی وصولی کا وعدہ میں سے مشکل پچاس فیصد رقم ہی نیب کو مل سکی ہے۔ البتہ پلی بارگین والے سارے افراد پھر سے پھل پھول رہے ہیں۔ اور نیب بن گیاہے کرپشن کا مائی باپ اور محافظ۔

اس ملک کے قوانین ہیں صرف تیسرے درجے کے عوام کے لئیے جو غربت اور نا انصافی کے اندھیرے میں اپنی زندگی کے صبح و شام کررہے ہیں۔
رہی اس ملک کی اشرافیہ یعنی کرپٹ حکمرانوں، وزیروں، مشیروں، افسرانِ بالا اور بیوروکریٹس کا ٹولہ تو بقول شاعر

Advertisements
julia rana solicitors london

شب کو مے ٹوٹ کر پی، صبح کو توبہ کرلی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply