• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یمنی عوام پر مسلط 3 سالہ جنگ، عوامل، محرکات اور اثرات۔۔سید اسد عباس

یمنی عوام پر مسلط 3 سالہ جنگ، عوامل، محرکات اور اثرات۔۔سید اسد عباس

یمن پر سعودی قیادت میں عرب ریاستوں کے یکطرفہ حملوں کو 1000 سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ ان حملوں کا آغاز 2015ء میں عبدالربہ منصور ہادی کی حکومت کے اقتدار کو باقی رکھنے نیز حوثیوں اور دیگر اپوزیشن گروپوں کے یمن پر کنڑول کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا۔ یمن میں حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز 2011ء میں ہوا، جب یمنی عوام، تیونس، مصر، بحرین اور دیگر عرب ممالک کے عوام کی مانند اپنے ملک میں آمرانہ تسلط کے خلاف میدان عمل میں اترے۔ یمنی عوام نے ملک میں غربت، ناانصافی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کرپشن کے خلاف آواز بلند کی، جسے ملک میں تیس برس سے زائد حکومت کرنے والے آمر علی عبد اللہ صالح نے طاقت کے زور سے روکنے کی کوشش کی۔ طاقت کے استعمال پر یمنی عوام مشتعل ہوگئے، مسلح قبائل نے علی عبد اللہ صالح کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرے اور حملوں کے نتیجے میں علی عبد اللہ صالح زخمی ہوا اور ملک سے فرار کر گیا۔ ملک میں امن و امان اور اقتدار کی منقلی کے لئے سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ کے پیش کردہ منصوبے کے تحت نائب صدر عبد الربہ منصور الہادی کو عبوری طور پر ملک کا صدر اور مسلح افواج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ 2012ء میں یمن میں صدارتی انتخابات ہوئے، جس میں عبد الربہ منصور ہادی کو اقوام متحدہ اور خلیج کونسل کے پیش کردہ منصوبے کے تحت دو سال کے عبوری دور کے لئے صدر منتخب کیا گیا۔

عبد الربہ منصور ہادی نے 2013ء میں قومی مکالمے کا آغاز کیا، جس کا مقصد ملک کے لئے نئے آئین کی تشکیل اور وفاقی سیاسی نظام کی تیاری تھا۔ اس مکالمے میں حوثیوں سمیت تمام اپوزیشن گروہ شامل تھے۔ اسی عرصے کے دوران میں حوثیوں کی اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا، جس کے سبب وہ اس عبوری حکومت سے الگ ہوگئے۔ 2014ء میں قومی مکالمہ کانفرنس نے عبد الربہ منصور ہادی کی حکومت کو ایک برس کی توسیع دی، تاکہ وہ اقتدار کی منتقلی کے عمل کو مکمل کرسکیں، جبکہ حوثیوں کو اس عمل سے قبل ہی اس معاملے سے الگ کر دیا گیا تھا۔ 2014ء میں یمن میں عوام کو حاصل فیول سبسڈی کو ختم کر دیا گیا، جس کے سبب ایک مرتبہ پھر یمنی عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام عبد الربہ منصور کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ حوثیوں کی سیاسی و عسکری تنظیم انصار اللہ نے بھی مظاہرین کا ساتھ دیا، اسی طرح دیگر بہت سی سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے خلاف میدان عمل میں اتریں۔ ان مظاہروں کے سبب یمن کے وزیراعظم نے استعفٰی دے دیا۔ انصار اللہ نے دیگر سیاسی گروہوں کے ساتھ مل کر مشترکہ حکومت کی تشکیل کے معاہدے پر دستخط کئے۔ صدر عبد الربہ منصور ہادی اور کابینہ کے بہت سے اراکین نے استعفے دے دئیے۔

ملک میں پیدا ہونے والے انتظامی خلا کو مختلف انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے پر کیا گیا، صدارتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے سپریم انقلابی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اسی طرح پارلیمنٹ کی تشکیل اور دیگر ملکی امور کو چلانے کے لئے انقلابی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ 2016ء میں سپریم انقلابی کمیٹی نے ملک کا اقتدار المجلس السیاسی اعلٰی کو منتقل کیا، جو دس اراکین پر مشتمل ہے۔ یمن میں تشکیل پانے والے سیاسی نظام کو خلیج کونسل اور اقوام متحدہ نیز امریکہ نے قبول نہ کیا  خلیجی ریاستوں منجملہ کویت، عرب امارات، بحرین، قطر اور غیر خلیجی مسلمان ممالک منجملہ مصر، مراکش، اردن، سوڈان اور سنیگال سعودی سربراہی میں ایک اتحاد قائم کیا اور 2015ء میں یمن پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ 2017ء میں سعودیہ اور قطر کے اختلافات کے سبب قطر اس اتحاد سے نکل گیا۔ یہ حملے اگرچہ حوثیوں کے خلاف شروع کئے گئے، تاہم اس کے اثرات پورے یمن پر پڑے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غربت کے شکار اس ملک کی تیس لاکھ کے قریب آبادی ملک میں ہی دربدری کا شکار ہے، قریباً دو لاکھ اسی ہزار افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ ملک میں دربدری کا شکار لوگ خوراک، چھت اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ یمن کی بندرگاہوں کا خلیجی اور مغربی ممالک کے جہازوں نے محاصرہ کر رکھا ہے، گندم کا ایک دانہ بھی ان بندرگاہوں سے یمن نہیں آسکتا۔ بندرگاہوں کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ مچھلی کے شکار کے لئے سمندروں میں نہیں اتر سکتے، یوں ان کا واحد ذریعہ معاش ختم ہو چکا ہے۔

عالمی صحت کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بچوں کی اکثریت وبائی امراض اور قحط کے دہانے پر ہے۔ یمن میں انسانی حقوق کا ایک ادارہ گذشتہ تین برسوں سے اس جنگ میں ہونے والے یمنی عوام کے نقصان کے بارے میں دنیاکو آگاہ کر رہا ہے۔ خلیجی اور عرب ممالک کی جانب سے مسلط کردہ اس جنگ میں جس میں انہیں مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ہونے والے نقصان کے اعداد و شمار کو نشر کرکے یہ ادارہ اس جنگ کی زمینی صورتحال کو دنیا کے علم میں لا رہا ہے۔ المرکز القانونی للحقوق والتنمیة نے یمن پر مسلط کردہ اس یکطرفہ جنگ کے اعداد و شمار حال ہی میں جاری کئے ہیں، اس سے قبل بھی یہ ادارہ اسی قسم کے اعداد و شمار جاری کر چکا ہے۔ یمن میں ہونے والے جانی، مالی اور وسائل کے نقصان کے حوالے سے اس ادارے کے اعداد و شمار کو ایک اہم مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء سے شروع ہونے والے فضائی حملوں میں اب تک 14291 افرد جن میں بچے، بوڑھے، خواتین اور عام شہری شامل ہیں، قتل ہوچکے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 22,537 یمنی شہری زخمی ہوئے، جن میں اکثر جہازوں کی بمباری یا اس کے نتیجے میں گرنے والے ملبے کا نشانہ بنے ہیں۔

ان حملوں کے نتیجے میں 15 ائیر پورٹ، 14 پورٹس، 2425 پل اور سڑکیں، 179 بجلی گھر اور بجلی کی پیداوار کے مقامات، 688 آبی مراکز، 410 کمیونی کیشن کے مراکز، 1761 حکومتی مراکز، 4,13,297 گھر، 903 مساجد، 309 ہسپتال اور طبی مراکز، 869 تدریسی مقامات، 141 یونیورسٹیوں کے شعبہ جات، 264 سیاحتی مقامات، 112 کھیلوں کے میدان، 30 میڈیا کے مراکز، 211 آثار قدیمہ کے مقامات، 2654 زرعی مقامات، 307 فیکٹریاں، 609 تجارتی مقامات، 6393 کاروباری مراکز، 722 اجناس کے گودام، 3757 ذرائع رسل و رسائل، 269 مویشی و پولٹری مراکز تباہ و برباد ہوئے۔ درج بالا اعداد و شمار کے تناظر میں یہ اندازہ لگانا قطعاً بھی مشکل نہیں کہ یہ جنگ حوثیوں یا کسی اور سیاسی گروہ کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے پورے یمنی معاشرے کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ اگر یہ جنگ کسی ایک مسلح گروہ یا جارح کو روکنے کے لئے ہوتی تو اتحادی طیاروں کا نشانہ فقط فوجی مراکز، چھاﺅنیاں اور ہتھیار ہوتے۔ درج بالا اعداد و شمار سے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جنگ یمن کے عوام کے خلاف ہے، ہسپتالوں، مساجد، بجلی گھروں، پانی کے مراکز، خوارک کے گوداموں، کاروباری مراکز، فیکڑیوں، آثار قدیمہ کے مقامات، کھیلوں کے میدانوں، سیاحتی مراکز پر حملے جس کے نتیجے میں یمن کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، کا مقصد کیسے کسی گروہ کو محدود کرنا ہوسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply