• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برطانوی راج نے پشتونوں کو کس طرح تقسیم کئے رکھا ؟ ۔۔غلام قادر جان

برطانوی راج نے پشتونوں کو کس طرح تقسیم کئے رکھا ؟ ۔۔غلام قادر جان

برطانوی راج کو ہندوستان میں دو امور کا ہمیشہ خوف لاحق رہا۔ پہلا یہ کہ روس افغانستان پہ قابض ہوجائے گا اور یوں اسے شمالی ہند میں داخل ہونے کا راستہ مل جائے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی متحدہ پشتون بغاوت ہندوستان کے اندر ہی برطانوی راج کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تو اسے افغانستان سے مدد ملے گی۔

اگرچہ بہت سے افغان بادشاہوں نے برطانوی ہند سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تاہم ان پر تاج برطانیہ کی طرف سے کبھی بھی اعتماد نہیں کیا گیا۔ شمال مغربی ہند میں برطانوی راج کی پالیسی علاقائی دفاع اور تحفظ تک محدود رہی ۔ اگرچہ اکیلا روس برطانوی راج کے لئے خطرہ نہیں تھا تاہم افغان حکومت اور ڈریونڈ لائن کے پار مغرب کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پشتونوں کی حمایت تاج برطانیہ کے لئے ہندوستان میں سخت مشکل پیدا کرسکتے تھے ۔

اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کہ پشتون کبھی بھی ایک جھنڈے اور نعرے تلے اکٹھے نہ ہوسکیں برطانوی راج نے انہیں تقسیم کئے رکھنے کا منصوبہ بنایا ۔ پہلے پہل انہیں ڈریونڈلائن کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔ بعد ازاں برطانوی راج میں مزید تین انتظامی حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ صوبائی تقسیم، بلوچستان اور وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقے (فاٹا) و شمال مغربی سرحدی صوبے کی جغرافیائی تقسیم ، یہ تینوں علاقے مختلف انتظامی بندوبست کے تحت چلائے گئے اور اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ ان کے درمیان کوئی انتظامی آہنگ نہ ہوسکے ۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مزید دو حصوں بندوبستی شہری علاقوں اور صوبائی حکومت کے زیر اہتمام قبائلی علاقہ جات (پاٹا) میں تقسیم کیاگیا ۔

بعد ازاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پشتونوں کے متعلق یہ اسٹرئیوٹائپنگ گھڑی گئی کہ وہ بہت غیرت مند ہیں اور بہت لڑاکے ہیں ۔ انہیں اس مقصد کے لئے کسی ان پڑھ مذہبی رہنما کی ضرورت تھی جسے وہ مذہبی چھتری تلے پشتونوں کا نمائندہ بنا سکیں اور پھر اس کے ذریعے پشتونوں کو تاج برطانیہ کی پہلی دفاعی لائن کے طور پر تیار کیا جا سکے ۔ لہذا انہوں نے پشتونوں میں جدیدیت کو قبول کرنے کے رویئے کی حوصلہ شکنی کی اور ان کی ظاہری شکل و صورت میں قبائلیت اور غیر تمدنیت کی حوصلہ افزائی کی ۔ اسی دوران انہوں نے اس کہانی کو بھی پروان چڑھنے دیا کہ پشتون بے وقوف ہوتے ہیں اور ان پر اعتماد کرنا غیر دانشمندی ہے۔

ان تمام کہانیوں کو عوام میں فروغ دینے کے لئے برطانوی راج نے مذہبی اکابرین ، پیر صاحبان اور ملکان کو پیسے اور دیگر مراعات کے ذریعے خریدا اور پھر عوام میں راج برطانیہ کے لئے ہمدردادانہ جذبات بیدار کروائے گئے ۔ یہ رویہ فروغ کروایا گیا کہ انگریزی راج ہماری ہی طرح کے اہل کتاب لوگوں کا ہے جو ہمارے ہی جیسے ہیں اور جن کے ساتھ ہم شادی بیاہ بھی کرسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس روسی ملحد ہیں ، کافر ہیں اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔

بالآخر ایک وقت آ گیا جب روسی افواج سوویت جھنڈے تلے افغانستان میں داخل ہوگئیں تو نام نہاد آزاد دنیا کو ان کے خلاف اپنا ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا موقع آگیا ۔ ایک بڑا آپریشن بنامِ افغان جہاد شروع کیا گیا جسے پوری دنیا کی تاریخی حمایت حاصل تھی۔

پاکستانی ریاست نے بھی اپنے قیام کے بعد پشتونوں کے ساتھ اسی سوچ اور رویئے کو تسلسل دیا جو اس سے پہلے برطانوی راج نے شروع کیا تھا ۔ تحریری اور عملی طور پر وہی انتظامی بندوبست باقی رکھا گیا ۔ پشتونوں کے متعلق انہی کہانیوں کو فروغ دیا گیا جو برطانوی راج میں گھڑی گئی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت پشتونوں کی غیرت مند جنگجویانہ طبیعت کی تھی ۔ اس تصور کو سوویت قبضے کے خلاف ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ افغان جہاد اور یہ تصور ایک ہی تصویر کے دو رخ تھے یہاں تک کہ ۹/۱۱ کا واقعہ پیش آیا اور یہ تصور ڈریونڈ لائن کے دونوں اطراف ملکی اور غیر ملکی مفادات سے ٹکرانے لگا۔ اب اس تصور کو ختم کرنے کی کوشش شروع کردی گئی۔

پشتون ، چاہے وہ کسی بھی علاقےمیں تھے انہیں مشتبہ دہشت گرد سمجھا گیا۔ انہیں امن و امان کے لئے ممکنہ خطرہ سمجھ کر ان کی نگرانی شروع کی گئی ۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں اعلانیہ طور پر پشتونوں کی  پروفائلنگ کی گئی۔ پشتون طلبہ کو یونیورسٹی ہاسٹلز میں رہائشیں نہیں دی گئیں۔

نجی رہائشی علاقوں اور ہوٹلز میں مقیم پشتونوں پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ نزدیکی پولیس تھانوں میں اپنا اندراج کروائیں۔ پولیس کی جانب سے اپنی انتظامی حدود میں احکامات جاری کئے گئے کہ پشتونوں پر نگاہ رکھی جائے اور کسی بھی نئے پشتون چہرے کے متعلق پولیس کو اطلاع دی جائے۔

ہزاروں پشتونوں کو پاکستان بھر میں زیر نگرانی رکھا گیا اور تاحال یہ رویہ جاری ہے۔ اس دوران جسے چاہا جاتا ہے دہشتگرد قرار دے کر ماورائے عدالت  پولیس مقابلوں میں قتل کردیا جاتا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ سے ملحقہ صوبہ ہنجاب کے اضلاع میں یہ ہدایات کی گئی ہیں کہ پشتونوں کو نہ تو کوئی بھی زرعی یا رہائشی اراضی بیچی جائے اور نہ ہی کرائے پہ دی جائے ۔ صوبہ سندھ میں قوم پرست جماعتوں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ اندرون ملک بے گھر ہونے والوں پشتونوں کے لئے اندرون سندھ رہائشی کیمپ نہ بنائے جائیں ۔

پہلے پہل افغانستان میں بے گھر ہونے والے پشتونوں کو پاکستان میں اس طرح کے نسلی اور علاقائی تعصب کا سامنا کرنا پڑا بعد ازاں فاٹا اور خیبر پختونخواہ سے بے گھر ہونے والے پشتونوں کو بھی ایسے ہی تعصب پر مبنی رویئے کا سامنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے قومی شناختی کارڈ بھی ان کے لئےکسی مدد کا باعث نہیں تھے کیونکہ کسی بھی پشتون کی پولیس گرفتاری کی صورت میں اس کا شناختی کارڈ ضبط کر لیا جاتا ہے۔ پشتون سول سوسائٹی اور قانون ساز سیاسی رہنماوں نے ہر سطح اور ہر فورم پر فاٹااصلاحات کے حق میں ، پشتون لوگوں کی پروفائلنگ  اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے تعصب کے خلاف اور پشتونوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے آواز اٹھائی ہے مگر ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

کراچی میں راو انوار نامی پولیس آفیسر  کے ہاتھوں ایک نوجوان پشتون نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل نے بالآخر اس اونٹ کی کمر توڑی ہے ۔ پشتون ملک بھر میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے گھروں سے نکلے ہیں اور انہوں نے یک زبان ایسے معاملے پر آواز اٹھائی ہے جس پر باقی ماندہ حلقے چپ سادھے ہوئے تھے۔ پشتونوں نے گذشتہ کئی سالوں میں ہر طرح کا تعصب اور صعوبت برداشت کئے ہیں ۔

اسلام آباد میں براجمان ریاست کے مقتدر حلقوں نے برسوں بعد ایک پر امن غیر سیاسی تحریک کا سامنا کیا ہے ۔ اس تحریک نے جو کہ عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے،  نے برسوں پہلے کی بنائی گئی برطانوی دور کی تقسیموں کو بھی روند ڈالا ہے۔ سالوں بعد ایسا لمحہ پشتون تاریخ میں آیا ہے جب وہ ایک جھنڈے تلے اور ایک نعرے تلے ایک غیر مذہبی و غیر مولوی شخص کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ممکن ہے کہ یہ ایک قلیل وقت کے لئے ہی ہو ،کسے خبر ہے ؟ تاہم کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے یہ تحریک ممکنہ طور پر پشتونوں کی سماجی و سیاسی نشاط ثانیہ کی بنیاد بن سکتی ہے۔

(مصنف ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں جو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ڈپٹی کمشنر اور فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹ کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں)

مترجم : شوذب عسکری

بشکریہ : ہیرالڈ!

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply