مانسہرہ واقعہ اور ہمارا رویہ۔۔جمال جامی

اگر آپ جرائم کی تخصیص مخصوص طبقات کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں گے تو شاید کوئی ایک طبقہ بھی آپ کو اس سے بری الذمہ نظر نہیں آئے گا۔
کچھ دیر قبل موجودہ واقعے کی تحقیقات جاننے کے لئے گوگل پر حقائق سرچ کرنے لگا۔۔موجودہ واقعے کے ساتھ ساتھ درجنوں نئے پرانے مزید واقعات اُبھر کر سامنے آئے۔کہیں سکول ٹیچر کی سٹوڈنٹ کے ساتھ زیادتی، کہیں خاتون ٹیچر پر سٹوڈنٹ کو غلط استعمال کرنے کے لئے ہراساں کرنے کا الزام، کہیں مدرسے کے استاد کی زیادتی، کہیں کالج کہیں یونیورسٹی، کہیں تھانہ کہیں کچہری۔
الغرض کوئی شعبہ، کوئی ادارہ، کوئی طبقہ ڈھونڈنے سے بھی شاید ایسا نظر نہ آئے جس میں یہ جراثیم ِ بد سرایت نہ کر چکے ہوں۔

اپنے گریبانوں میں جھانکیں یا آس پاس کا جائزہ لیں تو آپ کو درجنوں ایسے افراد نظر آ جائیں گے جو کسی نا  کسی صورت اس خباثت کا شکار اور اس بری عادت کے عادی ہوں گے،لیکن آپ کا ان سے اٹھنا بیٹھنا، یاری دوستی ، سلام کلام جوں کا توں برقرار رہتا ہوگا۔کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی ہوگی کہ کسی کو اس گند سے نکالنے کے لئے کوشش کریں،اسے اس حد  پروموٹ کیا جا چکا ہے کہ ایسے لوگ سرعام دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ہاتھ سے روکنا تو درکنار کبھی ازراہِ  ہمدردی یہ نصیحت بھی نہیں کی ہوگی۔
کیوں؟؟؟؟
کیونکہ اس شئے کی برائی ہمارے معاشرے کے دل سے نکل چکی ہے۔اور یہ جو باقی ہے یہ برائی نہیں محض منافقت ہے۔واقعات کو آڑ بنا کر غلاظت انڈیلنے کا اک بہانہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بالفرض کوئی ایسا واقعہ منظر عام پر آ جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس گھناؤنے جرم کے خلاف آواز اٹھائیں، قانون سازی کا مطالبہ کریں، سزاؤں کے اجراء کا مطالبہ کریں، ایسے لوگوں کو ایکسپوز کریں جو ان شنیع حرکات میں ملوث ہیں بجائے اس کے کہ کوئی ایسا اقدام کریں جس سے یہ جرم رُکے، مجرم کو سزا ہو، آئندہ کوئی جرات نہ کرے لیکن ملزم کو لے کر اس کے طبقے کے خلاف طعن و تشنیع کا باازار گرم کر دیا جاتا ہے
ملزم ظالم کا ظلم اور متاثر مظلوم کی مظلومیت پیچھے کہیں رہ جاتی ہے
اسی کشمکش میں انصاف بھی تھک ہار جاتا ہے
اور فکری تعصب بازی لے جاتا ہے۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply