پاکستان کی تاریخ میں تخریب۔۔نذر حافی

ہر عمارت اپنے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، برصغیر کی آزادی کے بھی کچھ ستون ہیں، بلاشبہ  سر سید احمد خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال  کا شمار انہی ستونوں میں ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک خاص منصوبے کے تحت سر سید احمد خان کی تکفیر کی جاتی ہے، پاکستان کا نام تجویز کرنے کا سہرا کسی اور کے سر باندھنے کی سعی کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کو ایک سیکولر انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی جیسے دہشت گردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، ویسے ہی علامہ اقبال اور قائداعظم کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مذہب نہیں۔ حالانکہ سب کے افکار و نظریات اور مذہبی عقائد روز روشن کی طرح عیاں ہیں، اس کے باوجود اب یہ لکھا جاتا ہے کہ دو قومی نظریئے کے بانی سر سید کے بجائے حضرت مجدد الف ثانی تھے، اسی طرح  لفظ پاکستان کے خالق کے طور پر چودھری رحمت علی کے بجائے کسی اور کا نام لیا جانے لگا ہے اور ساتھ ہی علامہ اقبال اور  قائداعظم کا چونکہ مذہب چھپانا مقصود ہے، اس لئے ان کے دینی و مذہبی نظریات کو سرے سے ہی رد کر دیا جاتا ہے۔ بھلا کہاں پر حضرت مجدد الف ثانی کا دور اور کہاں پر دو قومی نظریہ، کہاں حضرت شاہ ولی اللہ کا عہد اور کہاں پر لفظ پاکستان کا انتخاب، کہاں پر مولانا قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، مولانا مودودی اور یعقوب نانوتوی کے افکار اور کہاں پر علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات، اسی طرح کہاں پر دارالعلوم دیوبند اور جماعت اسلامی کا وژن اور کہاں پر تشکیل پاکستان۔ مذکورہ بالا ساری شخصیات قابلِ احترام ہیں، لیکن شخصیات کو بچانے یا بڑھانے کے لئے تاریخ میں تحریف سے گریز کرنا چاہیے۔ تاریخ میں تخریب اس لئے بھی کی جا رہی ہے، چونکہ جو لوگ تشکیل پاکستان کے خلاف تھے، اب وہ پاکستان میں اپنے وجود کے اظہار کے لئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں۔

23 مارچ کی مناسبت سے اس وقت  ہماری کوشش ہے کہ تاریخ پاکستان کی تین اہم شخصیات کے افکار و نظریات کا خلاصہ پیش کریں، پھر کسی اور مناسبت سے دیگر شخصیات کے کارنامے اور خدمات بھی بیان کئے جائیں گے۔  آیئے ہم شروع کرتے ہیں سر سید احمد خان سے اور سر سید کے بارے میں ان معلومات کا ذکر کرتے ہیں جو عام طور پر زیرِ مطالعہ نہیں آتیں۔
سر سید احمد خان
1857ء کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو سر سید ایک اکتالیس سالہ معروف دانشمند تھے۔ یعنی آپ 1817ء میں پیدا ہوئے اور 1857ء تک آپ کئی مقالات اور کتابیں لکھ چکے تھے، آپ کے نانا فریدالدین کشمیری آخری مغل بادشاہ کے وزیر اعظم تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت شاہی دربار میں ہی ہوئی۔  1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد سر سید احمد خان نے مندرجہ ذیل امور پر توجہ دی:
1۔ سول انگریز اہلکاروں کو نہ مارا جائے
2۔ مسلمانوں کا ہندووں کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے چونکہ دونوں کے عقائد، عبادت گاہیں، معبود، ہیرو، تاریخ، دین، رسومات، حلال و حرام اور پاک و نجس ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ پس ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔
3۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی ہے، لہذا وہ ہندووں کے بجائے مسلمانوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور کسی وقت بھی ہندو انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
4۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہندووں کے بجائے انگریزوں کو اپنے اعتماد میں لیں۔
5۔ عملی سیاست وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے زہرِ قاتل ہے، مسلمان سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔
6۔ جس چیز سے حکومت کسی ملت کو محروم کرنا چاہے، اس چیز کو اس ملت کے نصابِ تعلیم میں شامل کر دیا جائے۔

مذکورہ بالا امور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سر سید نے مندرجہ ذیل عملی اقدامات کئے:
1۔ رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کی اشاعت 1859ء میں ہوئی، اسی طرح اسی سال مراد آباد میں ایسے سکولوں کی بنیاد رکھی، جن میں فارسی اور انگریزی دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی، 1862ء میں غازی پور میں بھی اسی طرح کا سکول کھولا۔
2۔ 1864ء میں غازی پور سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی۔ انگریزی و دیگر یورپی زبانی کی سائنسی کتابوں اور مقالات کا اردو ترجمہ کیا جائے۔
3۔ 1869ء میں انگلستان کا سفر کیا اور وہاں کے دو مشہور رسالوں Tatler & Spectator کا مطالعہ کیا اور واپسی پر انہی کی روش کے مطابق  1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق شائع کیا۔
4۔ 1875ء میں ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹیل) ہائی سکول کی بنیاد رکھی، جو 1920ء میں یونیورسٹی بنا۔ 1885ء میں کانگرس کی بنیاد رکھی گئی تو سرسید نے مسلمانوں کو سیاست کے بجائے تعلیم کی طرف دعوت دی۔
5۔ 1886ء میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد رکھی، یہ ایک تنظیم تھی، جو ہر علاقے میں مقامی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سنتی اور ان کے حل کے لئے کوشش کرتی۔
6۔ سر سید احمد خان 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور علیگڑھ یونیورسٹی کی مسجد میں دفن ہوئے۔ یوں برصغیر کی آزادی کی تاریخ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
7۔ 1906ء میں ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی اور یوں سرسید کے بوئے ہوئے بیج سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کو منتخب کیا گیا، مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا اور برطانیہ میں لندن شعبے کا صدر سید امیر علی کو بنایا گیا۔

اسی  طرح سر سید کے بعد چودھری رحمت علی کے بارے میں بھی کچھ اہم اور مفید نکات بیان کرتے ہیں:
چودھری رحمت علی
سر سید کی وفات سے صرف ایک سال پہلے یعنی 1897ء میں، مشرقی پنجاب کے گاوں موہراں میں گجر خاندان کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا، جس نے اٹھارہ برس کی عمر میں تقسیمِ برصغیر کا فارمولہ پیش کیا[1]، جسے پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے اور جس نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔ اس نے 1918ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ یعنی بی اے تک کی تعلیم ہندوستان میں ہی حاصل کی، بی اے کے بعد محمد دین فوق کے اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے شعبہ صحافت میں عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 1931ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلٰی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1933ء میں چودھری رحمت علی نے وہاں پر پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری 1933ء کو انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران “اب یا پھر کبھی نہیں” (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ شائع کیا اور یہی پمفلٹ لفظ “پاکستان” کی تشہیر کا باعث بنا۔ 1935ء میں آپ نے آپ نے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزہ اخبار “پاکستان” بھی کیمبرج سے شائع کیا اور تشکیل پاکستان کے لئے امریکہ، جاپان، جرمنی اور فرانس کے دورے بھی کئے اور اس سلسلے میں ہٹلر سے ملاقات بھی کی۔ آپ نے ہی “سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ” کا تصور پیش کیا، جس میں پاکستان، صیفستان، موبلستان، بانگلستان، حیدرستان، فاروقستان، عثمانستان وغیرہ کے علاقے اور نقشے بیان کئے گئے۔[2]

آپ لاہور میں ہونے والے 23 مارچ 1940ء کے سالانہ اجلاس میں شامل نہیں ہوئے، اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں:
ایک خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث آپ پر پنجاب میں داخلے پر پابندی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ  آپ مسلم لیگ کے ساتھ آل انڈیا کے لفظ کے مخالف تھے، آپ کے نزدیک انڈیا کے بجائے دینیہ یا برصغیر کا لفظ معقول تھا۔ چونکہ آپ صرف مسلمانوں کو ہی متحدہ ہندوستان کا وارث سمجھتے تھے۔ تئیس مارچ کی قرارداد میں کہیں بھی لفظ پاکستان استعمال نہیں ہوا تھا، ہندو پریس نے اسے طنزاً قرارداد پاکستان کہا اور پھر یہی نام مشہور ہوگیا۔ تئیس مارچ 1940ء کا اجلاس قائداعظم کی زیر صدارت ہوا، جس میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان بننے کے بعد چودھری رحمت علی دو مرتبہ پاکستان آئے، تاہم پاکستان کی بیوروکریسی نے آپ کو قبول نہیں کیا اور آپ واپس لندن چلے گئے۔ 3 فروری 1951ء بروز ہفتہ آپ نے لندن کے ایک ہسپتال میں وفات پائی، جہاں سترہ دن تک آپ کے ورثاء کا انتظار کیا گیا اور بالاخر  20 فروری 1951ء کو دو مصری مسلمان طالب علموں نے چودھری رحمت علی کو  انگلستان کے شہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی- 8330 میں لاوارث کے طور پر امانتاً دفن کیا اور آپ ابھی تک وہیں دفن ہیں۔[3]

سر سید اور چودھری رحمت کے بعد علامہ اقبال کی شخصیت کے کچھ اہم پہلو بھی پیش خدمت ہیں:
علامہ محمد اقبال
9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938ء کو فوت ہوئے۔ 25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلٰی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لئے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے، جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی آزادی کے ایک ستون ہونے کے ناطے فکرِ اقبال میں امت کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے، لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انہیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔

جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔ اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انہیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یاد رکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔

اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔ اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حل اقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:
شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!

اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟
اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے

اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات

اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔

2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حل اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں “مسلمان” کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر

اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک

قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:
فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے

کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل
جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حل اقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی

لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انہیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے

اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔

4۔ ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرنا اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ امت مسلمہ کو جو مسئلہ درپیش تھا، وہ باشعور قیادت و رہبری کا فقدان تھا، جس کے باعث بعض تنگ نظر، کم فہم اور مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب لوگ، شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی دینی و ثقافتی روایات کو پامال کرنے میں غیروں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ جیسا کہ اقبال ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
فتنہء ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا

نااہل رہبروں کی رہبری کے بارے میں ضربِ کلیم کے صفحہ 112 پر نفسیاتِ غلامی کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال کہتے ہیں:
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

ضربِ کلیم کے ہی صفحہ171 پر اقبال فرماتے ہیں:
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو وہ سجدہ
جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیغام

ذمہ داری سے گریز کرنے کے مسئلے کا حل اقبال کچھ اس طرح سے بتاتے ہیں:
خودی میں ڈوب زمانے سے ناامید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریکَ لہ

اقبال نے امت مسلمہ میں قیادت کے فقدان، خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں میں پائے جانے والے والے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے صرف نوحہ اور آہ و بکا نہیں کی، بلکہ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنی توان و صلاحیت کے مطابق نبھانے کے لئے مسلم لیگ کی صدارت کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ اسی طرح آپ نے 1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے شرکت بھی کی۔

5۔ باصلاحیت اور قابل افراد کی ناقدری اور اس کا حل جو قومیں اپنے صاحبانِ فن کی قدر نہیں کرتیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسروں کے پیچھے چلتی ہیں اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کئے رکھتی ہیں، ایک تو ان کا دامن صاحبانِ فن و ایجاد سے خالی ہو جاتا ہے اور دوسرے وہ ہمیشہ سوالی بنی رہتی ہیں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

اس وقت اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ باصلاحیت اور قابل افراد سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کا بھی تھا، جس کی وجہ سے کوئی ایسی قیادت بھی وجود میں نہیں آرہی تھی، جو انگریزوں اور ہندووں کی سیاسی یلغار کے سامنے ڈٹ سکے، اس کے لئے اقبال نے جہاں اشعار میں اس مسئلے کا حل بتایا ہے، وہیں جب امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت بیرسٹر محمد علی جناح میں دیکھی تو فوراً انہیں مسلم لیگ میں شمولیت اور قیادت کی دعوت دی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ محمد علی جناح کو اقبال کی بروقت فعالیت نے ہی قائد اعظم بنایا ہے۔ فکرِ اقبال کی روشنی اور قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت کے سلسلے میں اقبال کی کاوشوں سے پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ امت غیروں کو اپنا رہبر و رہنما بنانے کے بجائے اپنے لائق، ذہین اور باصلاحیت افراد کو خدمت و قیادت کا موقع دے اور ان پر اعتماد کرے۔

6۔ مسلمانوں کے سامنے کسی واضح منزل کا نہ ہونا
اقبال کے نزدیک امتِ مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ خود مسلمانوں پر واضح نہیں تھا کہ وہ کیا کریں اور انہیں کیا کرنا چاہیے، اس کے لئے اقبال نے نہ ہی تو شاعروں کی طرح رومانوی ماحول ایجاد کیا، نہ فلاسفروں کی طرح اپنی تحریروں اور نہ گفتگو میں فلسفہ جھاڑ کر اپنی جان چھڑائی، نہ سیاستدانوں کی طرح دوہری باتیں کیں اور نہ مکاروں کی طرح پلورل ازم کا سہارا لیا، بلکہ اقبال نے صاف و شفاف الفاظ میں خطبہ اِلہ آباد میں ایک اسلامی ریاست کا واضح نقشہ پیش کیا۔
7۔ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا
اقبال کے نزدیک امت کی زبوں حالی کی ایک وجہ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا بھی تھا۔ اس سلسلے میں اقبال یہ چاہتے تھے کہ مسلمان غیر مسلموں کی سازشوں میں آنے کے بجائے اپنی خبر لیں اور اپنے آپ کو پہچانیں۔ چنانچہ ضربِ کلیم میں آپ فرماتے ہیں:
افرنگ از خود بے خبرت کرد
وگرنہ اے بندہ مومن! تو بشیری، تو نذیری

اسی طرح آپ نے اپنے ایک مضمون میں اس مسئلے کا ذکر بھی کیا ہے اور اس کا حل بھی وہیں پر لکھا ہے: “ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا، یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام نے ہی مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آپ اپنی نگاہیں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیّل سے متاثر ہوں تو آپ کی پراگندہ اور منتشر قوتیں ازسرِ نو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔”

8۔ مغربی تہذیب و ثقافت سے مسلمانوں کا مرعوب ہونا اور اس کا حل
انگریزوں نے مادی تسلط حاصل ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو فکری طور پر بھی مغلوب کرنا شروع کر دیا تھا، اس کے لئے انہوں نے اپنی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے کھلوائے، کتابیں لکھوائیں اور اخبار نکلوائے۔ اس کے علاوہ کئی افراد کو یورپ لے جا کر وہاں ان کی مغربی فکری خطوط پر تربیت بھی کی، لیکن اقبال استعمار کی اس فکری یلغار کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہے اور آپ نے عملی طور پر یورپی فکری یلغار کا مقابلہ کیا۔ چنانچہ آپ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ ِ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِمدینہ و نجف

اسی طرح بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہء غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے

یا پھر ضربِ کلیم میں اقبال ایک مسلمان سے جو گلہ کرتے ہیں، اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

افرنگی تہذیب و ثقافت سے مرعوبیت کا علاج اقبال نے ضربِ کلیم کے ص556 پر کچھ یوں بتایا ہے:
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سَمِ افرنگ کا تریاق
اک نکتہ میرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

یعنی اقبال کے نزدیک سَمِ افرنگ کا تریاق یہ ہے کہ انسان مومن بنے، ورنہ وہ جب تک کافر یا کافر نما رہے گا، یورپ کی تہذیب کے طلسم میں کھو کر حیراں و سرگرداں ہی رہے گا۔

9۔ دینی مدارس اور علمائے کرام میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان
اقبال کو جو سب سے بڑی مشکل نظر آرہی تھی، وہ امتِ کی دینی قیادت یعنی علماء میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان تھا، ان کے نزدیک مدارس میں شاہین بچوں کو خاکبازی کا درس دیا جانا ملت کے ساتھ بہت بڑی خیانت تھی۔ اس لئے کہ انہی بچوں نے آگے چل کر ملت کی قیادت اور سیادت سنبھالنی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر علماء انگریزوں کی غلامی اور ہندووں کی بالا دستی کو دل و جان سے قبول کرچکے تھے۔ ایسے علماء کا خیال تھا کہ ہمیں مذہبی رسومات کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہندو اور انگریز ہمارے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں، اس لئے ہمیں ان کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان سے ہمکاری کرنی چاہیے، چنانچہ اس صورتحال پر رنجیدہ ہو کر ایک مقام پر اقبال فرماتے ہیں:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

بانگِ درا میں شمع کے عنوان سے لکھی گئی ایک نظم میں اقبال علمائے کرام کے مصلحت آمیز رویّے، برہمنوں کی سازشوں اور کھوکھلی نمازوں کی منظر کشی کچھ یوں کرتے ہیں:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بَن ہوگئیں
سَطوَتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں

اسی طرح ارمغانِ حجاز میں اقبال کہتے ہیں:
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مئے خانہء صوفی کی مئے ناب

وہ ایسا دور تھا کہ بعض نام نہاد علماء حضرات نے استعمار کے اشارے پر مسلمانوں میں موجود عقابی روح کو مسخ کرنے کے لئے اسلامی افکار و نظریات اور عقائد کی تردید کرنی شروع کر دی تھی۔ چنانچہ اقبال طنزاً ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
ردِّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

علماء سے اقبال کو یہ شکایت تھی کہ انہوں قوم کی قیادت و رہنمائی کرنے کے بجائے قوم کو مغربی افکار سے مرعوب کرنا، فرقہ وارانہ مباحث کو فروغ دینا اور عقیدتی و کلامی بحثوں کو چھیڑنا اپنا معمول بنا رکھا ہے، جبکہ ملّت دن بدن غلامی کے نشے میں مست ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید جو امت کی طاقت تھی، علماء نے اسے صرف علمِ کلام کا ایک مسئلہ بنا کر رکھ دیا ہے اور واعظین ِقوم میں اتنی پختہ خیالی بھی نہیں ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی مصروفیات چھوڑ کر، اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدّن کو زندہ کرنے کی فکر کریں، وہ تعویز گنڈے، جادو کے توڑ، تجوید، روخوانی اور اذان و نماز سے آگے بڑھیں اور معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ چنانچہ بانگِ درا میں وہ کہتے ہیں:
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے

علماء کی اس بے حسی اور کم فہمی کے علاج کے طور پر اقبال نے امت کو علماء کی بے حسی سے آگاہ کیا ہے۔

10۔ مسلمانوں میں علاقائی نیشنلزم کا فروغ
استعمار نے ہندوستانی مسلمانوں میں جب انقلاب اور آزادی کی تڑپ دیکھی، خصوصاً تحریکِ خلافت، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، تحریک ریشمی رومال، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے افکار وغیرہ تو اس وقت استعمار نے مسلمانوں میں اسلامی ملی وحدت کو توڑنے کے لئے علاقائی نیشنلزم کو فروغ دینا شروع کر دیا، مسلمانوں میں یہ طرز فکر رشد کرنے لگی تھی کہ ہم اصل میں ہندی ہیں اور اتفاق سے مسلمان بھی ہیں۔ چنانچہ اقبال اس نیشنلزم کے مقابلے میں قیام کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعِیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اسی طرح نیشنلزم کے بت کے پجاریوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی

لیکن جب نام نہاد علماء کرام استعماری نیشنلزم کو منبروں سے فروغ دینے لگے تو ایک مرتبہ اقبال نام لینے پر مجبور ہوگئے اور آپ نے سرزمینِ دیوبند میں منبر سے نیشنلزم کی تبلیغ کرنے والے مولوی کو مخاطب کرکے کہا:
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
از دیوبند حسین احمد این چہ بو العجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملّت از وطن است
چہ بے خبر از مقامِ محمدِۖ عربی است
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بو لہبی است

Advertisements
julia rana solicitors

11۔ امت کے مسائل اور اقبال کی مناجات
عام طور پر اقبال کی ذات کے اس پہلو کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ اقبال ایک پکے موحد اور عاشقِ رسول تھے، چناچہ اقبال نے امت کے مسائل کو حل کرنے کا راستہ خدا اور رسولۖ کے ساتھ مناجات اور عشق میں ڈھونڈا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اقبال امت مسلمہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں کس طرح مناجات کرتے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے

امتِ مسلمہ کی خاطر اقبالۖ بارگاہِ پیغمبرِ اسلام میں اس طرح گریہ و زاری کرتے ہیں:
اے بادِ صبا! کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا
قبضے سے امّت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی

اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدۖ سے اجالا کر دے

ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمایئے:
حضورۖ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں

ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں:
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیۖ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں، خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] بزم شبلی کے 1915ء کے اجلاس میں آپ نے یہ نظریہ پیش کیا:
“ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔ اسلام اور خود ہمارے لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں۔”
[2] انہوں نے پاکستان، بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین ممالک کا نقشہ بھی پیش کیا۔ پاکستان میں کشمیر، پنجاب، دہلی سمیت، سرحد، بلوچستان اور سندھ شامل تھے، جبکہ بنگلستان میں بنگال، بہار اور آسام کے علاقے تھے اس کے علاوہ ریاست حیدرآباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔
[3] تحریک پاکستان کا ایک مظلوم اور عظیم رہنما۔ مولف حاجی نذیر تبسم گورسی ص۲۵

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply