کچھ دیر قبل اسرائیلی فضائیہ نے ایران پر حملے کیے ہیں۔حملے ایران کے مختلف شہروں میں موجود میزائل ڈپوز پر کیے گئے ہیں۔ گذشتہ روز تہران میں ایرانی انٹیلیجنس چیف اور ڈپٹی چیف کو اسرائیل نے شہید کر دیا ہے۔ بندر عباس تا تبریز آئل فیلڈز کو نشانہ بنایا ہے۔ میزائل ڈپوز تباہ ہوئے ہیں۔نیول ہیڈکوارٹر، انٹیلیجنس ہیڈکواٹر سمیت ایرانی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ ایران کے ایک سو بیس میزائل لانچرز کو تباہ کر دیا ہے جو کُل ایرانی لانچرز کا ایک تہائی ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے جو خبر ایک نامعلوم امریکی عہدیدار کے حوالے سے دی ہے کہ ٹرمپ نے آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو رد کر دیا ہے یہ سموک سکرین لگ رہی ہے۔مقصد امریکا کا ایران کو یقین دلانا ہے کہ ہم اسرائیلی حملوں کے پیچھے نہیں اور ہم سے مذاکرات کر لیں ورنہ پھر کل کو منظوری بھی دے سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے امریکی صحافی کو کہا ہے وہ اس جنگ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا ہے۔ ایران نے بھی گذشتہ روز اسرائیل پر میزائل برسا کر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل 24 ہلاکتوں کی تصدیق کر رہا ہے جبکہ ہلاکتیں اس سے کئی زیادہ ہیں۔اسرائیلی آبادیوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ نقصان کا تخمینہ اسرائیل کے اندازے سے زیادہ ہے۔ یہ ان کے لیے شاک ہے کیونکہ ان کو ایسے حملوں کی اور اس قدر نقصان کی توقع نہیں تھی۔ ایرانی حملوں نے آئرن ڈوم سسٹم کی قلعی بھی کھول دی ہے ۔ یہ ناقابل تسخیر ڈیفنس سسٹم نہیں ہے۔ اگر نوے فیصد میزائلز کو نیوٹرل کرتا ہے تو دس فیصد اس سے بچ کر ہٹ بھی ہوتے ہیں۔ اور یاد رہے یہ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل بیلسٹک میزائلز تھے۔ سپرسانک اور جدید میزائلز کو یہ کتنا روک پاتا ہے اس پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ نطنز اور اصفہان میں حملے کا نشانہ بننے والے ایران کی جوہری تنصیبات سے تابکاری کا اخراج دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ شاید ایران نے چار سو کلو گرام انتہائی افزودہ یورینیم کو کہیں اور محفوظ رکھا ہو۔فاکس نیوز پر اسرائیل نے رپورٹنگ کرنے کی پابندی لگا دی ہے۔اسرائیل بھر میں سائرن کی آوازوں سے اور بنکرز میں پناہ لینے کی افراتفری سے اسرائیلی شہری نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس پر CNBC نے اسرائیلی شہریوں سے گفتگو کر کے ایک رپورٹ نشر کی ہے۔تاحال تین ایف 35 سمیت دس طیارے گرانے اور پائلٹس گرفتار کرنے کے ایرانی دعووں کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔
آنے والے دنوں یا گھنٹوں میں دو معاملات واضح ہو جائیں گے۔ اول، کیا امریکا اس جنگ میں براہ راست شامل ہو جائے گا یا یہ دباؤ بڑھا کر کسی طرح ایران کو معاہدے پر راضی کر لے گا۔ ہر دو صورت میں ایران کو مشکلات درپیش ہیں۔دوم،ایرانی حکومت کے نہ ماننے کی صورت میں اسرائیل امریکی تعاون کے ساتھ علی خامنہ ای صاحب کو نشانہ بنا سکتا ہے اور کیا ایران ایسے کسی انتہائی قدم کو روکنے میں کامیاب رہ پاتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ علی خامنہ ای صاحب شیعہ مسلمز کے لیے انتہائی اہم شخصیت ہیں اور ان کے ہاں ولایت فقیہ کے نظرئیے مطابق نائب امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ایسا عمل دنیا بھر کے شیعہ مسلمز کو اشتعال دلائے گا اور خدشہ رہے گا کہ دنیا میں پھیلے ان کے ایسٹس یا شہریوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ ایسا انتہائی قدم تب اٹھایا جا سکتا ہے جب ایران کو زیر کرنے کا اور کوئی چارہ باقی نہ رہے۔

گذشتہ روز سعودی ولی عہد نے ایرانی صدر کو فون پر یہی مشورہ دیا تھا کہ ہم ایران کا بھرپور ساتھ دیں گے لیکن آپ دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ اسرائیل امریکا کو اس جنگ میں ملوث کرنا چاہتا ہے، آپ نے امریکی ٹھکانوں یا اڈوں کو نشانہ بنا کر امریکا کو جنگ میں براہ راست شامل ہونے کا موقع نہیں دینا۔ یہ ایم بی ایس کا صائب مشورہ ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے اسرائیل کو بھی اچھا خاصا سبق ملا ہے اور ایران نے بھی بھاری عسکری و اہم شخصیات کا جانی نقصان اُٹھایا ہے۔ جنگ بندی اور ڈیل کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ کوئی ڈیل ہوتی ہے تو اس میں ایران کو کافی کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ ایران کے سامنے آپشنز دو ہیں۔ یا تو یہ جنگ جاری رکھیں تاوقتیکہ ایران یا اسرائیل میں کوئی ایک مکمل تباہ نہیں ہو جاتا۔یا پھر صورتحال کی ایسسمنٹ کر کے اپنا ملک ، انفراسٹرکچر اور تاحال بچے ہوئے سول و عسکری ایسٹس بچا لیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں