جمہوری آمریت اور آمرانہ جمہوریت….لبرل مغالطے

جمہوریت کے بارے میں تصور یہ ہے کہ جمہوریت ایسا سیاسی طریقہ کار ہے جس کے زریعے عوام اہل اقتدار کو ہر پانچ سال میں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں. لیکن اس کے ساتھ ایک غیر جمہوری خیال بھی اس جمہوری تصور کے ساتھ مبہم طریقے سے جڑ گیا ہے. یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد جب عوام اہل اقتدار کو منتخب کریں تو وہ پہلے سے مختلف اہل اقتدار ہوں. ہر بار یکساں اہل اقتدار کو منتخب نہ کیا جائے. اسی لیے بعض ملکوں کے آئین میں یہ پابندی شامل کردی جاتی ہے کہ کوئی شخص مسلسل یا غیر مسلسل طور پر دو یا تین سے زیادہ بار صدر یا وزیرِ اعظم منتخب نہیں ہو سکتا. غور کیا جائے تو یہ جمہوری حق کے خلاف پابندی ہے کیونکہ عوام کو اس حق سے محروم کردیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو دو یا تین بار سے زیادہ چار یا پانچ یا چھ یا سات بار کسی شخص کو حکومتی سربراہ منتخب کرسکیں. جمہوریت کی رو سے تو بالآخر عوام کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کریں اور جتنی بارچاہیں منتخب کریں تو پھر یہ پابندی کیوں کہ عوام کسی ایک شخص کو دو یا تین مرتبہ سے زیادہ حکومتی سربراہ منتخب نہیں کرسکتے؟ اس پابندی کے جواز میں کہا جاتا ہے کہ قوم کے دیگر افراد کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام کی خدمت کریں. بالکل بجا, لیکن یہ حق تو عوام کو ہی حاصل ہے نا کہ وہ جسے چاہیں حکومت کے لیے منتخب کریں! عوام کی خدمت کے خواہشمند بہت سے لوگ انتخابات لڑتے ہیں لیکن منتخب تو وہی ہوتا ہے جسے عوام منتخب کریں. عوام کا اختیار عوام کی خدمت سے سرشار افراد کی خواہش اور حق پر مقدم ہے کیونکہ فرد کو نہیں بلکہ عوام کی اکثریت کو فیصلے کا حق حاصل ہے.

جمہوریت سے جڑے اس غیر جمہوری خیال سے ہی یہ خیال بھی پیوست ہے کہ ایک ہی فرد کی حکومت (شخصی حکومت) یا افراد کے ایک ہی مجموعے کی حکومت (ایک سیاسی جماعت کی مسلسل حکومت) جمہوریت کی نفی ہے. نہ ایک ہی فرد کو مسلسل حکومتی سربراہ منتخب ہونا چاہیے نہ ایک ہی سیاسی جماعت کو یہ استحقاق حاصل ہونا چاہیے خواہ یہ عوام کی, جمہور کی, مرضی ہی کیوں نہ ہو. چنانچہ وہ ملک بطور خاص غیر جمہوری ہونے کی تنقید کے دائرے میں لائے جاتے ہیں جہاں ایک ہی فرد سالہا سال سے حکومتی سربراہ ہو یا جہاں ایک ہی سیاسی جماعت مستقل حکومت پر براجمان ہو. ایسے ممالک دو قسم کے ہیں. ایک جانب شخصی آمریت پر قائم حکومتیں رکھنے والے ممالک اور دوسری جانب سوشلسٹ ممالک. عام طور پر جمہوریت کی زیل میں ان دونوں ممالک کے درمیان فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے ممالک ہی آمرانہ طرزِ سیاست و حکومت کی قید میں ہیں. درحقیقت ایسا نہیں ہے.

اگر ہم یہ سوال اٹھائیں کہ جمہوریت یا جمہوری طرزِ سیاست و حکومت کا مقصد کیا ہے تو جواب یہ ہو گا کہ اس کا مقصد عوامی فلاح و ترقی ہے. یعنی جمہوریت اس لیے درکار یا ضروری ہے تاکہ عوام کی زندگی میں خوشحالی اور ترقی آئے. جمہوریت بذاتِ خود ایک مقصد نہیں بلکہ یہ ایک وسیلہ ہے جس کے زریعے عوامی امنگوں اور خواہشوں کی ترجمانی اور نگہبانی مقصود ہے. اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کے زریعے عوام کے لیے عوام کی حکومت ہے. چنانچہ جمہوریت کا مقصد اور اس کا محور و مرکز عوام اور ان کی فلاح و ترقی ہے. کوئی بھی ایسا طرزِ سیاست و حکومت جو عوامی فلاح و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہو یا عوامی امنگوں اور خواہشوں کے خلاف ہو, اسے جمہوری قرار نہیں دیا جا سکتا. یہاں سے ہمیں یہ نکتہ سمجھ آتا ہے کہ کسی معاشرے کے بارے میں یہ طے کرنے کے لیے کہ آیا وہ معاشرہ جمہوری ہے یا نہیں ہے اور اگر ہے تو کس حد تک جمہوری ہے, ہمیں اس معاشرے میں عوام کے حالات زندگی اور معیارِزندگی کو بنیاد بنانا ہوگا.

تاہم اس ضمن میں جو غلطی اکثر کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کے حالاتِ زندگی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف طرزِ سیاست و حکومت سے یہ اندازہ لگانے اور تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آیا معاشرہ جمہوری ہے یا کس حد تک جمہوری ہے. لہذا, وہ معاشرے جہاں طرزِ سیاست و حکومت جمہوری ہے (جہاں لوگ ووٹ دے کر حکومت منتخب کرتے ہیں) وہاں عوام کے حالاتِ زندگی کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اس معاشرے کو محض طرزِ سیاست و حکومت کے جمہوری ہونے کی بناء پر جمہوری تسلیم کر لیا جاتا ہے. اسی غلط فہمی کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے جہاں طرزِ سیاست و حکومت جمہوریت نہیں (یعنی جہاں عوام ہر پانچ سال میں کسی نئے لیڈر یا کسی نئی جماعت کو منتخب نہیں کرتے یا جہاں مسلسل ایک ہی لیڈر اور ایک ہی جماعت مسندِ اقتدار پر براجمان رہتی ہے) لیکن جہاں عوام کے حالات زندگی خوشحال, پر امن اور پرسکون ہیں ان معاشروں کو صرف اس وجہ سے غیر جمہوری اور قابلِ تنقید گردانا جاتا ہے کہ وہاں طرزِ سیاست و حکومت غیر جمہوری ہے. ایسے معاشروں کو آمریتی جبر کے شکار معاشرے قرار دے دیا جاتا ہے. ایک تیسرے پہلو سے یہ غلط فہمی اپنا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہے کہ وہ معاشرے جہاں ایک لیڈر اور ایک جماعت مقتدر ہیں لیکن جہاں عوام کے حآلات بھی دگرگوں ہیں اور وہ معاشرے جہاں ایک ہی لیڈر اور ایک ہی سیاسی جماعت مسلسل اقتدار میں ہیں لیکن جہاں عوام کے حالات زندگی میں خوشحالی, سکون اور اطمینان ہے ان میں فرق کا لحاظ نہیں کیا جاتا. عوام کے حالاتِ زندگی کو بالکل نظر انداز کر کے صرف طرزِ سیاست و حکومت کی یکطرفہ عینک سے ان دو بنیادی مختلف معاشروں کو ایک جیسا قرار دے دیا جاتا ہے اور ان پر آمرانہ معاشروں کی مہر لگا دی جاتی ہے. یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان دونوں قسم کے معاشروں میں عوام کے حالات یکسر مختلف ہیں اور ان کے جمہوری یا غیر جمہوری ہونے کا فیصلہ کرنے میں طرزسیاست و حکومت نہیں بلکہ عوامی حالات زندگی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ جمہوریت کا مقصد عوام کی فلاح ہے.

اس لحاظ سے ہم معاشروں کی درجہ بندی طرزِ سیاست و حکومت اور عوام کے حالاتِ زندگی کے اعتبار سے تین قسموں میں کرسکتے ہیں اور ان کے جمہوری یا غیر جمہوری ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہیں.

اول وہ معاشرے جہاں جمہوری طریقے سے حکومت تشکیل دی جاتی ہے لیکن جہاں جمہوری طرزِ سیاست و حکومت کے باوجود عوام کے حالاتِ زندگی مصائب و مشکلات سے گھرے رہتے ہیں. مثال کے طور پر پاکستان کو لیجیے یا انڈیا کو. ہم ایسے معاشروں کو سطحی جمہوری معاشرے کہہ سکتے ہیں.

دوئم ایسے معاشرے جہاں طرزِ سیاست و حکومت ان معنی میں غیر جمہوری ہوتی ہے کہ وہاں ایک ہی لیڈر یا جماعت مسلسل برسرِ اقتدار ہوں لیکن وہاں عوام کے حالاتِ زندگی خوشحالی, اطمینان اور امن کی عکاسی کرتے ہیں. ان معاشروں کو ہم حقیقی جمہوری معاشرے کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان میں جمہور یعنی عوام کی ضرورتوں, امنگوں اور خواہشوں کی ترجمانی پائی جاتی ہے. مثال کے طور پر کیوبا اور شمالی کوریا کے معاشرے.

سوئم, وہ معاشرے جہاں ایک لیڈر یا جماعت مسلسل مقتدر رہتی ہے اور عوام کے حالاتِ زندگی کسمپرسی اور آلام و مصائب کی تصویر پیش کرتے ہیں. ایسے معاشرے حقیقتا غیر جمہوری معاشرے کہلائے جانے کے مستحق ہیں. مثال کے طور پر سہارتو کے دور میں انڈونیشیا. یا جنرل مشرف, ضیاء الحق اور ایوب خان کے دور میں پاکستان.

اگر ہم غور کریں تو اول اور سوئم طرز کے معاشروں میں طرزِ سیاست اور حکومت میں جمہوری اور غیر جمہوری کا فرق ہوتا ہےلیکن اس کے باوجود عوام کے حالات یکساں طور پر پسماندہ, ابتر اور مصائب زدہ ہوتے ہیں. چونکہ جمہوریت کا مقصد عوام کی فلاح ہے لہزا ان معاشروں میں عوام کی ابتر حالت کے سبب انہیں جمہوری نہیں کہا جا سکتا.

اگر ہم یہ سوال اٹھائیں کہ آخر عوام کو یہ جمہوری حق کیوں نہیں کہ وہ کسی مخصوص فرد یا جماعت کو مسلسل حکمرانی کے لیے منتخب کر سکیں تو جمہوریت کی رو سے ہمارے پاس اس کا جواب یہی ہو گا کہ عوام کو اس جمہوری حق سے محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اختیار کا سرچشمہ عوام ہیں. لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ایسے معاشرے بھی موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں جہاں عوام سالہاسال ایک فرد یا سیاسی جماعت کو حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں. ان معاشروں کے عوام ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے جمہوریت اور اکثریت کے حق کے نام پر اقلیت کی بالادستی قائم رکھنے کے خواہشمند حضرات تنازع کھڑا کردیتے ہیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی.

جن معاشروں میں عنانِ اقتدار ایسے عوام دوست رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے پاس آیا جنہوں نے صدقِ دل سے عوام کی فلاح کے لیے خود کو وقف کردیا اور گزشتہ زمانے کے مصائب و مشکلات سے عوام کو چھٹکارا دلا کر ان کی زندگیوں میں خوشحالی, سکون اور اطمینان بھر دیا انہیں عوام کی امر پزیرائی حاصل ہوئی اور عوام نے ان کو مسلسل مسند اقتدار پر اس لیے بٹھایا کہ وہ انہیں اپنے حقیقی مسیحا, وفادار اور مخلص کی حیثیت سے جان چکے تھے. یہ کوئی افسانوی بات نہیں. دنیا کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں. سوویت یونین, مشرقی جرمنی, البانیہ, چلی, چین, کیوبا, ویت نام, شمالی کوریا وغیرہ. ان ملکوں کے رہنماؤں اور عوام دوست سیاسی جماعتوں نے ان ملکوں کے عوام کو جاگیردارانہ ظلم و جبر سے, سرمایہ دارانہ استحصال سے, استعماریت سے نجات دلائی اور ان کے معیارِ زندگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا. مثلا شمالی کوریا میں ٹیکس نہیں لیا جاتا, بجلی, گیس کے بل نہیں لیے جاتے اور تعلیم و علاج کی تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں. سب شہریوں کو رہائش اور روزگار ریاست فراہم کرتی ہے. لیبیا پر امریکہ کے قبضے سے قبل تعلیم اورعلاج بالکل مفت تھے. رہائش اور روزگار ریاست فراہم کرتی تھی. کیوبا میں تعلیم, علاج اور صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں. روزگار اور رہائش ریاست کی زمہ داری ہے. ان ملکوں کی عوام آخر کیوں ان رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو بار بار منتخب نہیں کریں گے, کیوں ان سے اقتدار واپس لیں گے, جنہوں نے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے، جنہوں نے حقیقتا جمہوریت کے مقاصد کو پورا کیا ہے. کیا اپنی مرضی کے رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو باربار اور جتنی بار چاہیں اتنی بار منتخب کرنا عوام کا جمہوری حق نہیں؟ کیا صرف اس جمہوری اصول (جو کہ دراصل غیرجمہوری اصول ہے) کی پاسداری کے لیے کہ ہر پانچ سال بعد نیا لیڈر منتخب کیا جائے یا نئی سیاسی جماعت کو موقع دیا جائے, عوام اپنی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرنے والے رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں سے اقتدار واپس لے لیں؟

اگر یہ کہا جائے کہ ایسے معاشروں میں عوام کے پاس مخصوص رہنماؤں یا سیاسی جماعتوں کو منتخب کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں اور یہ صورتحال سیاسی جبر ہے تو نام نہاد جمہوریت اور جمہوری معاشروں میں عوام کی حالتِ زار دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس لبرل جمہوریت کے نام پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے اس سے تو یہ آمریت بہتر ہے جس میں عوام کو تعلیم, علاج, رہائش مفت فراہم کی جاتی ہے, روزگار کی فراہمی ریاست کی زمہ داری ہے اور ٹیکس نہیں لیا جاتا. ایسی جمہوریت جس میں تعلیم, علاج, رہائش اور روزگار سب اپنے پیسے, اپنے بل بوتے پر حاصل کرنا ہو اور درجنوں قسم کے ٹیکس اور مہنگے بل ریاست کو ادا کرنے ہوں, اس سے یہ آمریت لاکھ گنا بہتر نہیں ہے؟

کیا کوئی جمہوریت پسند (لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت کا حامی) یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ جمہوری ریاست ٹیکس نہ لے, گھر, تعلیم اور علاج مکمل طور پر مفت فراہم کرے, روزگار فراہم کرنے کی زمہ داری لے؟! ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے. یہ نام کی جمہوریت ہے. اس میں جمہور کے لیے, عوام کے لیے کچھ نہیں. اس میں سب کچھ اسی کے لیے ہے جس کے پاس دولت ہے کیونکہ اس میں ہر چیز پیسے سے ملتی ہے. عام, غریب آدمی, یعنی عوام, کے لیے اس جمہوریت میں صرف ووٹ دینے کا حق ہے. کیا ایسے سیاسی نظام کو آمریتی نظام کہنا کسی بھی باضمیرشخص کے لیے ممکن ہے کہ جس میں عوام کو مفت تعیلم, علاج, رہائش دی جارہی ہے, روزگار سب کے لیے ہے؟!

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن کچھ اربابِ حل و عقد چہار جانب گھات لگائے بیٹھے ہیں جو سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی شعبدہ گری کے ماہر ہیں. یہ لفظوں اور بیانیوں کی شعبدہ گری سے حقیقی جمہوریت کو آمریت اور سرمایہ دار، جاگیردار، تاجروں کی اقلیتی آمریت کو جمہوریت کردکھانے کے ماہر ہیں. ان کے نزدیک صرف وہ معاشرہ جمہوری ہے جہاں طرزِ سیاست و حکومت جمہوری ہے یعنی جہاں عوام کو ووٹ دے کر دولت مند طبقے کے کسی ایک یا دوسرے سیاسی گروہ کو اقتدار تک پہنچانے کا حق ہے. وہ معاشرے جہاں عوام دوست جماعتوں نے دولت مند طبقے کی آمریت کا خاتمہ کر کے عوام کا جمہوری اقتدار قائم کیا ہے، وہ معاشرے ان کی نظر میں آمریتی جبر میں پس رہے ہیں حالانکہ وہاں عوام کو خوشحال, مطمئن اور پرمسرت زندگی کی تمام بنیادی اور اضافی سہولیات فراہم کردی گئی ہیں.

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply