منٹو اور جماعتِ اسلامی

کسی نے پوچھا ہے کہ منٹو کے افسانے پڑھنے چاہئیں یا نہیں ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ اگر رشتے میں تاخیر کا سامنا ہے تو منٹو کے افسانے عبوری دور کے لئے بہت کام کی چیز ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سوال کی نوبت کیوں آتی ہے ؟ تو گزارش ہے کہ اس کے پس منظر میں اسلامی جمعیت طلبہ کی اس انسداد فحاشی مہم کا بڑا عمل دخل ہے جو منٹو کے افسانوں کی تشہیری مہم کے سوا کچھ نہ تھے۔ عام طور پر لوگ منٹو کے افسانوں کے خلاف ماحول کو بھی کسی مولوی کے فتوے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ مولوی جنسیات اور ادب کے معاملے میں خاصا روشن خیال ہے۔ اس کی روشن خیالی کا اندازہ آپ کو اس السبع المعلقات کے مطالعے سے ہو سکتا ہے جو دورِ رسالت ﷺ سے عربی کا ادب کا سب سے بڑا شہ پارہ چلا آ رہا ہے۔ یہ السبع المعلقات اگر اردو ترجمے کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں تقسیم کردی جائے تو اسلامی جمعیت طلبہ شاید فحاشی کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے پر مجبور ہو جائے۔ اس شہ پارے میں عریانیت اس عروج پر ہے کہ شاد مردانوی جیسا بے حیا آدمی بھی اس کی کلاس فیس بک کے کلوزڈ گروپ میں لگانے پر مجبور ہوا تھا۔ اور یہ السبع المعلقات درس نظامی کا اٹوٹ انگ ہے اور پاکستان کے تمام مدارس میں یہ کتاب بہت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔ درس نظامی میں دوسرے نمبر پر احمد بن حسین کا دیوانِ متنبی ہے۔ آپ کمال یہ دیکھیں کہ یہ احمد بن حسین صاحب وہ شخص ہیں جنہوں نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ قرآن مجید کی آیات کے مقابلے میں ادبی شہ پارے بھی تیار کئے اور اور اپنے بعض نام نہاد معجزے بھی ظاہر فرمائے۔ وہ تو بادشاہ سلامت نے ڈنڈا چڑھایا تو ان کا بھوت اترا ورنہ پیروکار تو انہوں نے بھی جمع کرنے شروع کر ہی لئے تھے۔ ان کی کتاب دیونِ متنبی کا مطلب ہی یہ ہے مدعی نبوت کا دیوان اس دیوان کی خاص بات احمد بن حسین کے کہا ہوا ہجویہ کلام ہے۔ جس میں یہ اخلاق و بے شرمی کی تمام حدود پھلانگتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ان کا ایک شعر تو ایسا ہے جو ہنسا ہنسا کر پیٹ میں درد کر دیتا ہے۔ اس شعر میں یہ اپنے بادشاہ سلامت کی عقل کا ٹھکانہ ان کے خصیتین میں دریافت کرتے نظر آتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر شیخ سعدی کی گلستان ہے جس کی ایک حکایت کا مرکزی ہیرو گدھے کا آلہ تناسل ہے۔ سو ملا کو منٹو سے کوئی پرابلم نہیں کیونکہ ملا تو ان کو نصاب کا حصہ بنا کر بیٹھا ہے جو منٹو کے بھی باپ ہیں۔ منٹو سے سارا جھگڑا اسلامی جمعیت طلبہ کا ہے اور اس میں فحاشی سے زیادہ اس بات کا عمل دخل نظر آتا ہے کہ منٹو کے افسانے مولانا مودودی کی نثر کو ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ سو بھائیو ! دوستو ! بزرگو ! میں تو کہتا ہوں کہ اگر رشتے میں تاخیر کا سامنا ہے تو کسی کی بیٹی کو پارٹ ٹائم پھنسانے سے بہتر ہے کہ تکیہ دونوں رانوں میں پھنسا کر منٹو کا افسانہ پڑھ ڈالیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”منٹو اور جماعتِ اسلامی

Leave a Reply