شاید کفن لانا بھول گئے تھے/امیر محمد خان

چلو جناب ! پی ٹی آئی کا شور شرابا جسے فائنل کال کا نام دیا گیا تھا وہ ایک ’’مس کال‘‘ ثابت ہوا ،افغانیوں ، اور صوبہ سرحد سے لائے ہوئے دھما چوکڑی مچانے والوں کو ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی طرف عازم سفر کیا گیا جو صوبہ سرحد کے اخراجات پر آنسو گیس کے شیل ، بہت سی گاڑیوں، اسلحہ سمیت آئے ، انہیں یہ ہی پیغام دیا گیا کہ خان کو لیکر جانا ہے ، اب دھرنا جب ہی ختم ہوگاجب خان آکر عوام سے کہے گا احتجاج ختم کردو ۔پی ٹی آئی نے اپنے ہی بیانات اور طریقہ کار سے اپنی جماعت کو نقصان پہنچایا ہے ، اور موجودہ دھرنا ڈرامہ نے اس جماعت کو صوبہ سرحدتک محدود کردیا ہے ، صوبہ سرحد کے عوام تاریخی اعتبار سے اپنے قول و فعل میں بہت مضبوط مانے جاتے ہیں، کہ جو کہہ دیا وہ کہہ دیا ، بدلہ کی خواہشات اتنی ہوتی ہیں ’’تم نے ہمارا مہمان قتل کیا ، ہم تمھارا مہمان قتل کرے گا ‘‘اس غیور قوم کو ملک ، افواج پاکستان کے خلاف انکے ذہنوںکو اپنے قابو میں رکھا ہے کہ وہ کسی چیز کی پروا کم کرتے ہیں اور ایک دفعہ زبان دے دی تو دے دی ، مگر انہیں اب یہ ہرگز پسند نہیں کہ انہیںاحتجاج میں شامل ہونے کیلئے چاہے رقم بھی دی ہو مگر احتجاج میں لاکر جبکہ یہ معصوم لوگ جبر برداشت کرکے ، اپنے گھروںسے دور ہوکر اپنی دی ہوئی زبان کی وجہ سے احتجاج میں بھر پور انداز میں پہنچے اور سامنے سے لیڈر بھاگ جائے ، انہیں سڑک پر پولیس کے تشدد ، گرفتاریوں کیلئے چھوڑ جائے ، حالیہ ڈی چوک جانے کی دھما چوکڑی میںیہ کہنا غلط نہ ہوگا بشریٰ بی بی کے اعداد و شمار اور حکم کے مطابق ٹکٹوں کے خواہش مند ممبران صوبائی اسمبلی کو 5000 افراد لانا تھے اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے خواہش مندوںکو 10,000 لوگ لانا تھے یہ تعداد 5کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے مگر وہاں تو بیس پچیس ہزار سے زیادہ لوگ ہی نہیں آئے ، نیز اس احتجاج میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کا کوئی احتجاجی نظر نہیں آیا اسطرح یہ ’’فائنل کال ‘‘ صرف صوبہ سرحد کی جانب سے تھی جس میں افغانی بھی شامل تھے۔ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ سرحد کے اس توڑ پھوڑ کے احتجاج نے اس جماعت کو اب صوبہ سرحد کی جماعت بنا دیا ہے ۔ فوٹیج آئیںکہ اپنے لیڈروں کی بھاگنے کے بعد پولیس کے رحم و کرم پر رہنے والے جس زبان میں اپنے لیڈروں کو یاد کررہے تھے وہ پی ٹی آئی کی زبان تھی اخبار میں لکھنا ٹھیک نہیںاسے معزز لوگ پڑھتے ہیں ۔سابقہ احتجاجوں کے بعد علی امین گنڈا پور جس طرح غائب ہوئے تھے اور کہاں غائب ہوئے تھے کہاںکہاں گئے تھے ۔ پی ٹی آئی کی حال کی صورتحال میں جب کہ انکے کئی صف اول کے رہنما وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اسلئے شائد بشریٰ بی بی کو علی امین گنڈا پور پر بھی اعتبار نہ تھا اسلئے وہ انہیںساتھ لیکر گاڑی میں روانہ ہوگئیں اسی خدشے کے پیش نظر اور خبروںکے مطابق پولیس پیچھا کرتی رہی ۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا گرفتار کرنے کی خواہش مند پولیس کی گاڑی میںپیٹرول کم تھا ، یا گاڑیوں کی رفتار کم تھی بشریٰ بی بی کی گاڑی سے ۔ اگر گہری نظر سے سوچا جائے اپنے ملک کی سابقہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے ’’ سب ملکر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ‘‘ احتجاج کو ختم کرنے کیلئے safe passage دینا تھا وہ دے دیا احتجاج ختم ہوگیا خان کی اڈیالہ کی رہائشگاہ پر ایک تالہ اور لگ گیا ۔ایک منچلے نے احتجاج ختم کرنے ، بھاگ جانے ، مظاہرین کا جوتیاں ، اور اپنی کاریں چھوڑنے پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہ مظاہرین کو کہا گیا تھا کفن باندھ کر آنا ، مرنا ہے مگر خان کو رہا کرانا ہے، وہ سب کفن بھول آئے تھا اس لئے جانا پڑا یا یوں کہا جائے کہ بھاگ جانا پڑا ۔ اس پورے ڈرامے میںپی ٹی آئی کے بڑے بڑے روزانہ بیانات دینے والا کوئی لیڈر نظر نہیں آیا ، اس سے ثابت ہوا کہ اس دھرنے پر پوری جماعت متحد نہ تھی ۔ میدان سے بھاگنے کے بعد اگر کوئی ’’مذاکرات ‘‘ ہونگے تو اس میں پی ٹی آئی کو بہت نچلی سطح پر آنا پڑے گا ، احتجاج کیلئے مستقبل میں سوچ سمجھ کر اعلان کرنا ہوگا چونکہ عوام چاہے وہ صوبہ سرحد کے ہوں یا افغانستان کے وہ بھی احتجاج کیلئے آنے تکالیف اٹھانے کے متعلق سو مرتبہ سوچیں گے۔ اب حکومت سے یہ ہی درخواست ہے ان گرفتاریوں کے بعد عام عوام کو تکالیف سے نہ گزرنا پڑے ۔ انکے بچے ہیں ، انکے والدین ہیں ، خاندان ہیں اور ان میںبے شمارایسے ہونگے جو اپنے گھر کے اکیلے کفیل ہونگے اسلئے صرف جو کسی انتہائی اقدام میں ملوث ہوںصرف انکے خلاف ریاست سے بغاوت پر سزا دیںاورباقی کو صرف تنبیہ کریں ، یہ احتجاج اور بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کے اعلانات کی ذمہ دار ی حکومت کو لینا چاہئے کہ 9 مئی والوں کے خلاف ایکشن وقت پر لیا جاتا تو احتجاج اور چڑھائی کی دھمکیاں کم ملتیں ،رینجرز ، افواج پاکستان کو بلانا نہ پڑتا ، پولیس کی کارکردگی وزیر داخلہ محسن نقوی کی تمام تر کوششوںکے باوجو دٹھیک نہ ہوسکی، بے شمار شکایات آئیںان دنوں میں کہ جو لوگ رکاوٹوں کی وجہ آگے نہیں جاسکتے اور انہیںپولیس اہلکاروںنے بیس روپے سے تین ہزار روپیہ لیکر آگے جانے دیا ، پی ٹی آئی کا احتجاج تو بھر پور تشددی کارروائیوں پر محیط ہوتاہے چاہے عدالتیںکتنا کہیں کہ پرامن کریںاور پھر عدالتیںبھی سڑکوںپر جلتی گاڑیوںکو دیکھ کر بھی انہیں پر تشدد نہیں مانتیں، پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج میں انکے لیڈروں کو علم تھا عمران خان رہا تو نہیںہونگے ، منع کرنے کے باوجود آگے جائینگے ، جیسا کہ بشریٰ بی بی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں تھیں اور اس احتجاج کے نتیجے میں معصوم لوگوںکی کچھ لاشیں چاہئے تھیں جس پر آئندہ سیاست کی جاتی مگر محسن نقوی نے دن رات جاگ کر اس بات کو ممکن نہ ہونے دیا آیا ماضی میں اپوزیشن کی کوئی ایسی تحریک بھی چلی جس میں کارکن باقاعدہ مسلح ہو کر ہاتھوں میں ڈنڈے اور غلیلیں اٹھائے اور اپنے بیگز میں پتھر اور روڑے بھر کر جلوس میں شامل ہوئے ہوں اور پولیس اہلکاروں پر سیدھے فائر کرتے‘ پٹرول بم پھنکتے‘ لاٹھیاں برساتے اور غلیلوں سے نشانہ باندھ کر سکیورٹی اہلکاروں کو پتھر مارتے نظر آئے ہوں۔ اگر اپوزیشن کی کسی تحریک کے دوران ریاستی اتھارٹی کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے ریاستی اداروں بالخصوص سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ انکی عمارات‘ حساس تنصیبات اور قومی ہیروز کے مجسموں تک پر منظم انداز میں حملے کرکے ان کا حشرنشر کیا جائے‘ قومی پرچم اتار کرپائوں تلے روندا جائے‘ سکیورٹی حکام کی ہینگرز پر لٹکی وردیوں کو ہجوم میں لا کر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے‘ ان سب کے باوجود ریاست نے کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا کہ معصوم عوام کو خون میں رنگا جائے ۔ چونکہ وہ تو معصوم ہیں ۔ انتشاری سیاست دان ہیں۔ نواز شریف ، آصف زرداری کی رہائی کیلئے ماضی میں ان جماعتوں نے قانوںاپنے ہاتھ میں نہیں لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply