ہم جو سوار ہوئے لوکل وین میں

ہم اسلام آباد کے سب سے مشہور ہسپتال پمز کے سٹاپ پر کھڑے تھے۔ ٹیکسی والے سے کرایہ دریافت کیا تو اس نے پانچ سو روپے بتایا۔ سٹاپ پہ ٹیکسیوں ، ویگنوں اور مسافروں ‏کا رش لگا ہوا تھا۔ آنے جانے والوں کی ریل پیل تھی۔ زندگی کے سفر میں ویگنوں والے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھے۔ ساتھ کھڑی سواری سے جب وین کا کرایہ معلوم ہوا ‏تو ہم نے بھی اس سستے ترین سفر کا ارادہ کر لیا۔ برخوردار کو انگلی سے لگائے ہم وین کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ وین ہم سے کچھ فاصلے پر جا کر رک گئی۔ ہم تیزی سے وین کی طرف دوڑے مگر ہمارے پہنچنے تک وہ بھر چکی ‏تھی۔ ہم وہیں پر رک گئے۔ مگر اگلی وین پیچھے ہی رک گئی۔ ہم تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگے مگر پیچھے کھڑے مسافروں سے وین کھچاکھچ بھر چکی تھی۔ سو وین کبھی ہم سے پیچھے ‏رکتی تو کبھی آگے۔ لہٰذا ہم وین پکڑنے کے چکر میں آٹھ دس ریسیں لگا کر ہانپنے لگے۔ برخوردار بھی پسینے سے شرابور ہو گیا۔ مایوسی طاری ہونے کو تھی کہ ایک وین بالآخر ہمارے ‏قدموں کے پاس آ کر رک گئی۔ اگلی سیٹ پر دو آدمی تشریف فرماتھے کیونکہ وہاں لکھا تھا یہ سیٹ خواتین کے لیے مخصوص ہے اور اگلے دروازے کے ساتھ چوڑیاں لٹکی ہوئی ‏تھیں۔
ہم جلدی سے گاڑی میں سوار ہو گئے اور ڈرائیور کی پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔ سیٹیں فل ہو چکی تھیں مگر سواریاں مزید چڑھتی جا رہی تھیں۔ کھڑکی کی طرف ہمارا دوسرا نمبر ‏تھا۔ ڈرائیور شور مچا رہا تھا آگے ہو جائیں اور آگے اور آگے۔ ہمارے سامنے والی چھوٹی بینچ ٹائپ سیٹ پر چار پانچ خواتین بڑی مشکل میں تھیں۔ ہم نے برخوردار کا ہاتھ بڑی مضبوطی ‏سے تھامے رکھا مگر وہ دس لوگوں کے بیچ پھنسا ہوا بلبلا رہا تھا۔ اس کا ہم صرف سر ہی دیکھ پا رہے تھے۔ اپنی ٹانگوں اور پاؤں کی بھی خبر نہیں تھی کہ کہاں تھے۔ اپنے اپنے گھٹنے ‏تلاش کرنے مشکل تھے۔ ہمارے لئے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ ایسے میں دیکھا تو مزید دو تین خواتین سوار ہونے کی کوشش میں تھیں۔ کنڈیکٹر انہیں پیچھے سے دھکا لگا کر ان کے ‏آدھے دھڑ اور سر دروازے سے اندر گھسانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اپنا سر اندر نہ کر سکا۔ وہ کھلے دروازے میں کھڑا ہو کر شور مچا رہا تھا آ جائیں فیض آباد، کھنہ پل، کورال چوک، ‏روات۔۔ آگے ہو جائیں اور آگے ۔ سواریوں کو جگہ دیں۔ ‏
‎ ‎دروازے کی دوسری سائڈ پہ کھڑکی تھی جو بہت چھوٹی تھی اگر بڑی ہوتی تو دو چار سواریاں باہر گر جاتیں کرایہ تو وہ دے ہی چکی تھیں۔ لہٰذا مسئلہ آسان ہو جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ‏سواریاں ہمارے اوپر گری ہوئی تھیں۔ ہمارا سانس بند ہونا شروع ہو گیا۔ ہمیں نزع کی کیفیت کا اندازہ ہوا تو ہم چیخ اٹھے۔ ہم اپنی اکھڑتی سانسوں سے بس اتنا ہی کہہ پائے
گا۔۔ ا۔ ا۔ ڑ۔ر ۔۔ی ۔۔ رو۔ و۔ کیں۔یں۔۔
خوش قسمتی سے گاڑی رک گئی۔ ہمارے اوپر گری ہوئی خواتین میں سے دو جھٹکا لگنے سے باہر جا گریں۔ ہمیں اپنا سر اٹھانے کا راستہ مل گیا۔ ہم نے پوری طاقت سے اپنے وجود کو ‏کھینچا۔ بر خوردار کی ٹانگیں ہنوز سواریوں کے بیچ پھنسی ہوئی تھیں اور وہ چلا رہا تھا۔ ہم مجاہدانہ قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اور برخوردار کو پورے کا پورا باہر نکالنے میں کامیاب ‏ہو گئے۔ ہمارا سانس پھولا ہوا تھا، نیلے آسمان کو دیکھتے ہی کلمئہ چکت کا ورد شروع کر دیا۔ برخوردار کے جوتے کا ایک پیر غائب ہو چکا تھا اور ٹراؤزر کا ایک پائنچہ پھٹا ہوا تھا۔ ہم نے ‏وین روکنے کی کوشش کی مگر وہ تو فراٹے بھرتی ہوئی جا چکی تھی کیونکہ اگلے سٹاپ پہ مزید سواریاں انتظار میں تھیں۔ ہم نے ہانپتے کانپتے ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو قریب کھڑے ٹیکسی والے نے ہماری مجبوری کو بھانپتے ہوئے فٹ سے ٹیکسی ہمارے قریب لا کھڑی کی۔ ہم کچھ کہے سنے ‏بغیر ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔ حواس ابھی بجا نہیں ہوئے تھے، بمشکل گھر کا رستہ سمجھا پائے۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر ہم اپنی سانسیں ہموار کرتے ہوئے ٹیکسی سے باہر نکلے، ‏کرایہ دریافت کیا تو اس نے کہا آٹھ سو روپیہ دے دیں۔ ہم نے بغیر کسی بحث کے فورا پرس کھولا۔ مگر پرس خالی دیکھ کر اوسان خطا ہو گئے۔ وین کے رش میں کسی نے انتہائی ‏مہارت سے ہمارے پرس کا صفایا کر دیا تھا۔ ہم نے آئندہ وین کے سفر سے توبہ کی اور تھکے ہوئے بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی۔ ‏

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply