عالمی تجارتی جنگ کا نیارخ۔۔ثاقب اکبر

ان دنوں عالمی سطح پر ’’تجارتی جنگ‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال ہو رہی ہے۔ ماضی میں دو عالمی جنگوں کو بے ہنگم اور اندھا دھند تجارتی جنگوں کا ہی نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ماضی کا طرز عمل اگر عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے تو بڑی اقتصادی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ اور ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیوں کا نتیجہ کہیں مسلح جنگ کی صورت میں تو نہیں نکلے گا؟
پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے موقع پر دنیا اسلحے کے اعتبار سے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔ اسلحہ کے میدان میں بھی بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ روسی صدر نے حال ہی میں ایک ایسا جوہری ہتھیار بنا لینے کا اعلان کیا ہے جو دنیا میں کسی بھی مقام کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔ چین نے اپنے دفاعی بجٹ میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اسلحہ اور فوج کے اعتبار سے بھارت کو دنیا کی چوتھی بڑی قوت تسلیم کیا جارہا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’تجارتی جنگیں اچھی ہوتی ہیں‘‘۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ٹیلی ویژن پر چلنے والے ایک اشتہار میں کہاجاتا ہے کہ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں ‘‘ لیکن اسلحے اور وہ بھی جوہری اسلحے کے داغ کو کس طرح اچھا کہا جاسکتا ہے؟ شاید مسٹر ٹرمپ اس داغ کو بھی اچھا کہہ سکیں کیونکہ امریکا نے ابھی تک ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم برسانے پر معذرت نہیں کی، اگرچہ معذرت بھی اس داغ کو ختم نہیں کر سکتی۔
جہاں تک تجارتی جنگ کا معاملہ ہے تو شاید امریکی صدر ٹرمپ کی نظروں میں سب سے زیادہ چین کھٹکتا ہے چنانچہ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ چین ہمارا دشمن ہے۔ وہ انتخابی مہم سے بہت پہلے 2011میں یہ بھی  کہہ چکے ہیں کہ چین  ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ تجارتی میدان میں چینی دھوکے باز ہیں۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’دیکھو چین ہمارے ملک کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ وہ چین کی تعمیر کے لیے ہمیں بینک کی طرح استعمال کررہا ہے۔‘‘امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں چین پر لفظی گولہ باری جاری رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ چین دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی کاذمہ دار ہے اور وہ سستی برآمدات سے امریکا کو ریپ کررہا ہے۔
امریکی صدر کی دھمکیوں کے جواب میں چین نے بھی واضح طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ کی تو چین بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ چینی ترجمان ژینگ یسوئی نے گذشتہ دنوں یہ بیان دیا کہ اگر چینی مفادات کو نقصان پہنچا تو ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ چین اور دیگر کئی ایک ممالک نے امریکی صدر کی طرف سے امریکا میں درآمد کی جانے والی سٹیل پر بھاری بھرکم ڈیوٹی عائد کرنے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔
امریکا کا معرکہ فقط چین سے نہیں بلکہ یہ تجارتی معرکہ یورپی یونین کے ساتھ بھی ہے۔ چنانچہ امریکی صدر نے یورپی یونین میں بنی ہوئی گاڑیوں پر بھی نیا ٹیکس لگانے کی بات کی ہے۔عالمی رپورٹس کے مطابق یورپی سربراہوں نے بھی امریکا سے آنے والی ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کی درآمدات پر 25فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یورپی کمیشن کے سربراہ ژان کلود ینکر نے کہا کہ اگر غیر منصفانہ اقدامات سے ہماری صنعت متاثر ہوئی تو ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔برازیل میکسیکو اور جاپان نے بھی کہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اپنے اقدامات جاری رکھے تو وہ بھی جوابی اقدامات پر غور کریں گے۔کینیڈا نے بھی اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

گذشتہ دنوں جرمن شہر بادن میں جی 20 وزرائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر خطا ب کرتے ہوئے چین کے وزیر خزانہ ژیاؤ جی نے کہا کہ امریکا کو تجارتی تحفظ پر مبنی پالیسیوں کے خلاف جی 20 وزرائے خزانہ کو ذرہ بھر بھی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے عالمی تجارتی نظام نہ صرف خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ کئی عالمی تجارتی معاہدے بھی خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس موقع پر جرمن وزیر اقتصادیات برگیٹے سیپریس نے امریکا کو وارننگ دی ہے کہ تجارتی جنگ پر جوابی وار ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پروٹیکشن ازم پر مبنی پالیسیوں پر جرمنی کو ہدف بنانے کی کوشش کی گئی تو برلن حکومت واشنگٹن کے خلاف جوابی اقدام کر سکتی ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا کا اشتراک جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قائم ہے اور جس کو قائم کرنے میں امریکا نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اب آویزش کی شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی امریکا کو خبر دار کررہے ہیں۔ چنانچہ امریکا کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کے علاوہ آئی ا یم ایف اور ڈبلیو ٹی او بھی ٹرمپ کے اقدامات پر تنقید کررہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ تجارتی جنگوں کے نتیجے میں امریکا کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی نقصان ہوگا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس عالمی مالیاتی اداروں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے خاص طو ر پر ایپک کے اجلاس میں ڈبلیو ٹی او پر تنقید کی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ تجارتی جنگ میں کرنسی کی جنگ بھی حصہ دار ہے۔ چنانچہ برازیل خبردار کر چکا ہے کہ چین، امریکا اور دوسرے ممالک کی جانب سے کرنسی کی قدر میں مصنوعی ردوبدل کی وجہ سے دنیا ایک تجارتی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف بھی کہہ چکی ہے کہ کچھ ممالک اپنی کرنسی کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں مصنوعی ردوبدل کا معاملہ جی 20 کے اجلاس میں بھی زیر بحث آ چکا ہے۔ فرانس کے وزیر اقتصادیات نے بھی امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ پابندیوں کے حوالے سے امریکی بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یورپی یونین اس کا سخت اور منظم جواب دے گی۔
عالمی اقتصادی امور کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ عالمگیریت اس وقت چین کے زیادہ مفاد میں ہے۔ چنانچہ مختلف عالمی فورمز پر چینی صدر شی جن پنگ نے گلوبلائزیشن کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ معاشی ترقی سے لاکھوں لوگوں کی زندگی میں بہتری اور ترقی آئی ہے۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ امریکا جیسا ملک اس وقت عالمی منظرنامے سے پسپا ہو رہا ہے۔ چین کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں اور اقدامات پر تمام مغربی طاقتیں دباؤ میں ہیں۔
ان تمام حالات میں اس امر کا امکان موجود ہے کہ کسی مرحلے پر کسی بڑی طاقت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، پہلی اور دوسری عالمی جنگ جیسا نہیں بلکہ کہیں زیادہ ہولناک اور خوفناک۔امریکا اس وقت بھی بہت بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کی فی کس آمدنی 56ہزار ڈالر ہے۔ جب کہ چین کی فی کس آمدن 8ہزار ڈالر ہے۔ امریکا کو سب سے بڑھ کر حوصلے کا مظاہرہ کرنا ہے اور اگر وہ دانشمندی سے عالمی امور میں اپنا کردار ادا کرے تو دنیا کو تباہی سے بچانے کی زیادہ امید کی جاسکتی ہے لیکن اگر امریکا اس توقع پر پورا نہ اترا اور امریکا کی موجودہ قیادت کی وجہ سے اس توقع کے پورا ہونے کے امکانات بھی کم ہیں تو پھر امید کے خلاف ہو جائے تو اسے معجزہ ہی کہا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ تجزیات!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply