شام کی اصل صورت حال۔۔داؤد ظفر ندیم

 ـ یہ حقیقت ہے کہ شامی عوام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف نفرت موجود تھی اور لوگ اس سے چھٹکارہ چاہتے تھے شام میں فوج میں لازمی بھرتی کا قانون ہے وہاں کے لڑکے بالوں کو آرمی کی بنیادی ٹریننگ دی جاتی ہے شامی حکومت مخالف جذبات کے پیش نظر انہی لڑکوں پر مشتمل بری فوج کے اک حصے نے فری سیرین آرمی کی صورت میں بشار الاسد کے خلاف بغاوت کر دی جسے شروعات میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی مگر جیسے ہی ان کے زیر تسلط علاقوں میں لوٹ کھسوٹ اور بربریت سامنے آئی تو یہ لوگ بھی اپنی عوامی مقبولیت کھو بیٹھے ادھر بشارالاسد کی نا اہلی کے باعث النصرہ، احرار اورداعش کو پنپنے کا بھی موقع مل گیا ان کو بھی شروع میں کافی کامیابیاں ملیں، مگر جلد ہی ان گروپوں کا باہمی اختلاف بھی سامنے آیا اور شامی لوگوں کو اندازہ ہوا کہ مخالفین کے درمیان گہری نفرت اور دشمنی ہے بشار الاسد کا متبادل کوئی دوسری مستحکم حکومت نہیں بلکہ ایک مسلسل خانہ جنگی ہے۔

اس افراتفری کے پیش نظر امریکہ  بہادر نے شام کو عراق افغانستان اور لیبیا بنانے کا ارادہ باندھا اور شامی حکومت کو غیر قانونی قرار دے دیا ـ مگر اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ صدام اور قذافی اس بیرونی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہے جبکہ بشارالاسد کوپہلے ایرانی امداد تھی مگر اس امداد کے باوجود وہ مزاحمت کو روکنے میں ناکام تھا کیونکہ دوسری طرف امریکہ ,اسرائیل، سعودیہ اور ترکی کا اتحاد تھا۔ مگر جب روس نے عملی طور پر جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا صورت حال تبدیل ہونے لگی۔

اب شامی افواج مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔ فری سیرین آرمی کی مقبولیت کی وجہ ان کا خود کو جمہوری اور سیکولر متبادل کے طور پر پیش کرنا تھا مگر جب ان کو داعش النصرہ اور احرار کا سامنا کرنا پڑا تو فری سیرین آرمی بری طرح ناکام رہی اس کے ساتھ مسلسل خانہ جنگی، مسلسل مہنگائی کے ساتھ خوراک اور اشیائے خورونوش کی قلت نے شامی افراد کو شام سے فرار ہرنے پر مجبور کیا شامیوں کو احساس ہو گیا ہے کہ لیبیا اور عراق جیسے انجام سے بہتر ہے شام کی موجودہ ظالم حکومت سے ہی کام چلایا جائے اب بھی شامی حکومت کے زیر اثر علاقوں میں صورت حال بہتر ہے وہاں اشیائے خوردونوش میں قلت نہیں پیدا ہوئی اورنہ ہی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سی ناجائز پابندیوں اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود ہسپتال اب بھی بہتر طبی امداد فراہم کر رہے ہیں بیشتر بنیادی ضروریات دستیاب ہیں بجلی ہے صنعت و حرفت کام کر رہی ہے۔

فری سیرین آرمی کی قیادت جلاوطن لبرل کہلائے جانے والے سرمایہ داروں اور بری فوج کے باغی حصے پر مشتمل تھی۔ ان کو ملک کی جمہوری قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔ مگر فری سیرین آرمی کو سعودی اور ترکی حمایت حاصل نہیں ہو سکی ان کو جلد ہی سعودی اور ترکی امداد سے آراستہ جنگجوؤں  کا سامنا کرنا پڑا جس سے شہری آبادی کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری دنیا سے جہادی اور جنگجو آنا شروع ہوگئے جن کا سامنا سیرین فری آرمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ روس کے ویٹو کی بدولت شام میں نو فلائی زون بھی نہ بننے دیا گیا۔ بشارالاسد کی نا اہلی اور شامی عوام کی بیزاری کے باعث جو علاقے شدت پسند تنظیموں کے قبضے میں چلے گئے تھے رشیا کی امداد کے بعد ان کا قبضہ چھڑایا جانے لگا، جب جب کوئی علاقہ ان کے تسلط سے آزاد ہونے کے قریب ہوتا ہے تو مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ حلب کی واگزاری کے وقت بھی خوب مچایا گیا تھا تب سوشل میڈیا پر حلب سے آخری پیغام کے نام سے بے شمار موبائل ویڈیوز گردش کرتی نظر آئیں تھیں۔ وائیٹ ہیلمٹ نامی اک پروڈکشن ہاؤس بھی منظر عام پر آ چکا ہے جو حلب کی واگزاری کے وقت امت مسلمہ کی لڑکیوں کے بن قاسم کے نام پیغام جیسی جھوٹی ویڈیوز بنانے کا کام پروفیشنل طور پر کرتا ہے اور ایسی فیک جنگی ویڈیوز بنانے پر اسے آسکر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

دوسری طرف حلب کی واگزاری کے وقت رشین منسٹری آف ڈیفنس نے ڈرون سے لائیو سٹریمنگ کے ذریعے دکھایا تھا کہ سیرین فورسز نے سویلینز اور یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے والے جہادیوں کو بھی انخلا کے لیے محفوظ کوریڈور دیا ہوا تھا، ـ اب حالات یہ ہیں کہ شدت پسند تنظیموں نے غوطہ کی عام آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہوا ہے یہ لوگ خود کشی کے ذریعے شہادت پر آمادہ نظر آتے ہیں انہوں نے نہ صرف جنگ بندی کی تمام پیشکش رد کر دی ہیں بلکہ عام شہریوں کو باہر بھی نہیں نکلنے دے رہے اور شامی فورسز کو اکسانے کے لیے مشرقی غوطہ کے علاقے سے مارٹر گولے بھی داغ رہے ہیں دوسری طرف سے بھی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔

چونکہ بیرونی مداخلت اور ایک آمرانہ حکومت کے درمیان جنگ اب مذہبی رخ اختیار کر چکی ہے اس لیے ہر کوئی اسے اپنے پسندیدہ بیانیے کی نظر سے  دیکھ رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں معصوم لوگ اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں پہلے معاملہ سیرین آرمی اور ایک آمر کے درمیان تھا اب معاملہ ایک آمر اور شدت پسند مذہبی تنظیموں کے درمیان طاقت کے حصول کا بن چکا ہے ۔اب یہ سعودی اور ایرانی حمایت یافتگان کے مابین مسلکی جنگ بھی نہیں رہی بلکہ امریکہ اور مغرب کے اتحاد کے خلاف روسی پیش رفت کی بات ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالی مظلوموں پر رحم کرے اور ہمارے ملک کو فتنے سے محفوظ رکھے یہ عالمی اشرافیہ بہت بے رحم اور سنگ دل ہے ان کا کھیل ملکوں کو اجاڑ دیتا ہے اور ہم کبھی مذہب کے نام پر، کبھی مسلکی جوش سے اور کبھی لسانی، قومی یا نسلی جذبے سے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply