ابو جی آپ عظیم ہیں

زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرا۔ بچپن سے جوانی تک جب بھی ان کی آنکھوں میں جھانکا ایک عجیب سا سکون نصیب ہوا۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر ہمیشہ قرار آیا۔ باپ امیر ہو یا غریب، وہ کسی کالج کا مایہ ناز پروفیسر ہو یا سائنسدان، لوہا کوٹتا لوہار ہو یا جوتے سیتا موچی، تگاری سر پر اٹھائے راشن کا حساب لگاتا مزدور ہو یا بیٹی کی بڑھتی عمر کے روگ میں ڈھلتا سورج، باپ ہر صورت میں باپ ہوتا ہے۔ بیٹے کی فیس پوری کرنے کے لئے اوور ٹائم لگاتا، بیٹی کے جہیز میں فریج رکھنے کے لئے گرم پانی پیتا باپ، اپنے گھر کی دیواروں میں بیٹھی بوڑھی ماں کی دواء کا انتظام کرنے کے لئے امیرِ شہر کی دیواریں اسارتا باپ اس قدر عظیم ہے کہ اس کی عظمت شاید الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ باپ کیا ہوتا ہے، یہ تب تک سمجھ نہیں آتی جب تک ایک آدمی خود باپ نہیں بن جاتا۔ میلی قمیص اور پھٹی ہوئی بنیان پہنے، جوتے کو ٹاکیوں کے جگاڑ سے چلانے والا باپ جب بیٹے کو اجلے لباس میں دیکھتا ہے تو اپنے سب درد بھول جاتا ہے۔احباب کی دیکھا دیکھی جب یورپ جانے کے لئے ضد کی تو سب سے پہلے پریشان ہونے والے ابا جی تھے۔اس لئے نہیں کہ ویزہ وغیرہ کے اخراجات کہاں سے آئیں گے، شاید کچھ اور وجہ تھی جو ایک باپ ہی جانتا ہے۔چار سال کی عمر میں مجھے سکول کے دروازے پر چھوڑتے وقت ان کی آنکھوں میں سہما سہما سا ایک عجیب احساس مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا۔شاید وہ بھی ایک باپ ہی جانتا ہے۔میں نے آج تک انہیں روتے نہیں دیکھا۔سوائے ایک بار کے جب میرے گلے کے آپریشن کے وقت پیپرز پر دستخط لے کر انہیں آپریشن تھیٹر سے باہر جانے کو کہا گیا۔وہ آنسو کیوں آئے، یہ بھی بس ایک باپ جانتا ہے۔باپ پہاڑ ہوتا ہے، وہ سمندر ہوتا ہے وہ ٹھنڈے پانی کا چشمہ ہوتا ہے۔ابا جی ہمیشہ ہم سب بھائیوں کو سمجھاتے، صبح دیر تک سوئے رہنے پر ڈانٹتے اور چولہے کے قریب بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے بہت سی نصیحتیں کرتے ۔بعض دفعہ شدید الجھن اور ناگواری کا احساس ہوتا۔ہماری الجھن کو سمجھتے ہوئے بھی نصیحتیں جاری رکھتے اور سمجھاتے رہتے۔ایسا کیوں تھا، یہ اب سمجھ آتا ہے جب قدم قدم پر ان کی کہی باتیں کام آتی ہیں جو کسی زمانے میں لایعنی لگتی تھیں۔ان کے بازوؤں کے حصار میں تحفظ کا احساس میں آج بھی محسوس کرتا ہوں مگر بیٹے کو اپنے سینے سے لگا کر باپ کو جو تقویت ملتی ہے وہ ایک باپ ہی جانتا ہے۔۔باپ سے محبت ایک فطری تقاضا ہے اور ہر کسی کو اپنے باپ سے محبت ہوتی ہے۔مگر ہم چاہ کر بھی اس محبت کا اندازہ یا احاطہ نہیں کر سکتے جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے۔وڈیو چیٹ میں سب گھر والوں سے بات ہوتی ہے، امی خوش ہوتی ہیں دعائیں دیتی ہیں، بھائی بہنیں موسم کا حال پوچھتے ہیں، پڑھائی کا پوچھتے ہیں اور اردگرد کی باتیں کرتے ہیں۔ابا جی سے بات ہوتی ہے تو وہ میری طرف دیکھتے رہتے ہیں اور بس اتنا ہی پوچھ پاتے ہیں بیٹا ٹھیک ہو ناں۔۔ باقی سب وہ آنکھوں سے کہہ دیتے ہیں۔انکی آنکھوں میں ایک انتظار کرتی محبوبہ جیسا پیار ہوتا ہے، ایک دوست جیسی مزاج شناسی، بھائیوں والی الفت اور باپ جیسی شفقت۔ دنیا کی قیمتی ترین شئے باپ ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔مجھے اپنے باپ میں خدا کا روپ صاف دکھائی دیتا ہے۔بارعب مگر بے پناہ رحیم اور شفیق۔۔وہ اب نصیحت نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں بیٹا سمجھدار ہوگیا ہے یا شاید اس لئے کہ مجھے ہمیشہ کی طرح برا نا لگ جائے۔ باپ اور بیٹے کے رشتے میں بدترین گھڑی وہ ہوتی ہے جب باپ اس لئے کچھ نہ بولے کہ بیٹے کو ناگوار گزرے گا۔ابا جی کو کاٹن فیکٹری میں خسارہ ہوا اور معاش کا دیوالیہ نکل گیا۔گھر تک بیچنا پڑ گیا۔عین ممکن تھا کہ تعلیم کا سلسلہ ترک کر کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتا مگر انہوں نے نا صرف ہم سب کو پڑھایا بلکہ اسی ٹھاٹھ باٹھ سے رکھا جیسے پہلے رہتے تھے۔ہماری آسائش کے پیچھے ابا جی جن مصائب سے گزرے یہ تب سمجھ نہیں آیا۔شاید یہ منطق کسی بھی بیٹے کو سمجھ نہیں آتی تاوقتیکہ وہ باپ بن جائے۔سب الجھنوں اور مصائب کے پہاڑ تن تنہا سینے پر ٹیکتے کس جانبازی سے دوبارہ آسودگی کی طرف لوٹے یہ لمبی کہانی ہے مگر اس میں ہر ہر قدم پر ان کی اولاد کے لئے محبت شفقتِ پدری کا ایک استعارہ بنتی گئی۔خاندان کے دیگر افراد نے کوٹھیاں چڑھائیں، زمینیں خریدیں، پلاٹ بنائے جبکہ ہمارے ابا جی اپنی کمائی کا کل حصہ ہماری تعلیم اور خواہشات کی نذر کرتے آئے۔ہمیں پھر بھی ہمیشہ گلہ رہا کہ ابا جی نے یہ ٹھیک نہیں کیا وہ ٹھیک نہیں کیا اور وہ سن کر ہنس دیتے۔مجھے آج تک ان سے پیسے مانگنے نہیں پڑے، ہمیشہ خود سے دئیے اور میری ضرورت سے بڑھ کر دئیے۔یہ باپ بڑے سادہ ہوتے ہیں۔ خود پھٹے پرانے کپڑوں میں پھریں گے مگر اولاد کے کپڑوں پر میل کا ایک دھبہ تک برداشت نہ کریں گے۔رشتے کی یہ خوبصورت مثلث جس میں بیٹا جب باپ بن جاتا ہے اور باپ کو بھول جاتا ہے،بڑی بے رحم ہے۔کتنا ستم ہے کہ انسان بیٹا ہو کر باپ کی عظمت کو نا سمجھ سکے اور باپ بن جانے کے بعد باپ کی سی تکالیف اولاد کے لئے جھیلتے ہوئے بوڑھے باپ کو بھول جائے مگر بوڑھے باپ کے احساسات کیا ہوتے ہیں، یہ جوان باپ کو اس وقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک وہ خود بوڑھا ہو کر بسترِ مرگ پر لیٹ نہیں جاتا۔ ہمیں اس مثلث کو محبت سے جوڑے رکھنا چاہیے جس میں ایک چھوٹا بچہ باپ کی انگلی پکڑ کر باپ بنتا ہے اور پھر باپ بن کر بیٹے کی انگلی پکڑتے وقت دوسرے ہاتھ سے اپنے باپ کی انگلی تھام لیتا ہے۔اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ آپ ایک باپ ہوں اور آپ کا باپ آپ سے راضی ہو۔

Facebook Comments

نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply