مقبوضہ کشمیر کے حالات

حالات میں”بہتری”مفروضہ نہیں حقیقت بناؤ۔۔آدمیت دم بخود ہے مرگئی انسانیت!
چند ماہ سے مسلسل خون ریز جھڑپوں کے دوران ایک طرف مقامی عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں اور دوسری جانب جھڑپ کے دوران  احتجاجی جوانوں پر براہ راست گولیاں چلانے، پاوا اور پیلٹ کے مسلسل استعمال سے کئی ایک نہتے نوجوانوں کی موت واقع ہوئی ہے، کئی ایک زخموں سے چور ہیں۔ یہ سلسلہ برابر گرمائی ایجی ٹیشن 2016ء سے جاری ہے، جب پوسٹر بوائے کہلانے والے مقامی عسکریت پسند جماعت حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی ایک جھڑپ کے دوران جاں بحق ہو گئے تھے۔ تب سے آج تک اس سلسلے میں برابر اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ پدگام پورہ پلوامہ اور چاڈورہ کے دلدوز سانحے اس سلسلے کی تازہ مثالیں ہیں ۔ تصادم آرائیوں کے دوران جہاں حالیہ چند مہینوں میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے ،وہیں عام شہری بھی پرامن احتجاجوں کے دوران قبروں میں اُتارے جا چکے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ایک طرف مرکزی سرکار ،فوج اور ریاست جموں و کشمیر کی غیر موثر مخلوط سرکار یہاں حالات میں’’ سدھار ‘‘ کی راگنی دہرا تے ہیں اور دوسری طرف آئے روز قتل و غارت گری کا بازار گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ جھڑپوں اور احتجاجوں کے دوران جو نوجوان اللہ کو پیارے ہو رہے ہیں ان میں ایک کثیر تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پائی جاتی ہے، خاص کر عسکریت سے وابستہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے جو معلومات منظر عام پر آتی ہیں وہ کافی چونکا دینے والی ہیں۔ اس سے مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے وہ دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں جن میں اقوام عالم اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ وادی ٔکشمیر میں عوامی بے چینی چند ’’گمراہ‘‘ نوجوانوں کی کارستانی ہے اور یہ کہ حالات بہتری کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ لفظ’’ بہتری ‘‘ کی تشریح ہر روز عسکری جھڑپوں اوراحتجاجی مظاہرین کی موت اور مضروبیت سے بہتر کسی اور چیز سے نہیں ہو سکتی اور ا یک واجبی عقل و فہم رکھنے والا شخص بھی ان چیزوں کو دیکھ کر یہی کہہ سکتا ہے کہ کشمیر میں حالات جوں کے توں ہیں، ا گرچہ ان میں بہتری کے آثار ساون کے کسی ا ندھے کو دکھائی بھی دیتے ہوں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس قوم کے حق ِ حیات ، حریت ِ فکراور جملہ حقوق تلف کئے جا چکے ہوں ،وہاں سلب شدہ حقوق کی بحالی کئے بغیر حالات میں بہتری کے خواب دیکھنا اور بہتری کے ڈھنڈورے پیٹنا خود فریبی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ مرکزی سرکار یہاں کی عوامی تحریک کو ہمیشہ غیروں کی پشت پناہی سے چلنے والی سازش سے تعبیر کرتی رہی ہے ، جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر یہاں اکثر و بیشتر مقامی عسکریت پسند فیلڈ میں ہیں اور وہی جھڑپوں میں کام بھی آتے رہے ہیں ۔ یہاں مقامی آبادی کا خون ہی مسلسل بہہ رہا ہے، ایک اچھی خاصی تعداد میں یہاں غیر حربی نوجوانوں کا خون بھی بہایا جا رہا ہے ، نیز جن کے گھر بار بارودکی نذر کئے جاتے ہیں وہ بھی یہاں کے پشتینی باشندے ہیں۔اس سے صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے طول وعرض میں کشمیری قوم اپنی سیاسی و مذہبی پہچان کی بقاء اور دوام کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس لئے کرسی والوں کا موقع بے موقع یہ جھوٹ بولنا کہ حالات سدھر رہے ہیں ، ان بیانات میں سوائے ان کے غم ِ اقتدار کے رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہوتی ۔ حق یہ ہے کہ کشمیر کا قضیہ ایک طویل سیاسی لڑائی ہے جس میں اول تا آخر عوامی جذبات ، قربانیاں اور خواب گندھے ہوئے ہیں۔ یہاں کی عوامی تحریک غیروں کے زور ، اشارے یا پشتیبانی سے نہیں چل رہی بلکہ عیاں و بیاں حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک عوام کی ہے ، عوامی جذبہ حریت پر اپنا مدار رکھتی ہے اور اس کی کامیابی کے لیے عام لوگ ہی اپنی جانوں اور مال کا نذرانہ پیش کرتے جا رہے ہیں۔ یہاں کے باشعور نوجوان کسی کے بہکاوے یا شہ پر خود کو کٹوا نہیں رہے ہیں بلکہ وہ رضاکارانہ طور پر سامنے آرہے ہیں اور اپنے گرم گرم لہو سے سرزمین وطن کو تر کر رہے ہیں۔ اس لئے اصل مسئلے کو بیان کئے بغیر یا ان زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے یا کسی ٹولے کو اقتدار کی کر سی سے خرید کر کشمیر میں کبھی ایک پل بھی خون خرابہ رُک نہیں سکتا اور نہ امن بحال ہوسکتا ہے ، اس کے لئے صرف کشمیر حل کی اشد ضرورت ہے ۔
حالیہ دس ماہ سے کشمیریوں کی مار دھاڑ کا سلسلہ تیز تر ہو چکا ہے، اس سلسلے کی شروعات 1989ء میں ہوئی تھی۔ان دنوں حالات و کوائف میں بہت زیادہ شدت پائی جاتی تھی تاہم اپنے بنیادی حقوق اور پہچان کی اس جنگ میں لوگوں نے طریقۂ کار میں تبدیلی بھی لائی ، البتہ ہنوز مرکزی سرکار کی ہٹ دھرمی کم ہوئی نہ مزاج بدلا ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب پھر سے دن بہ دن اس مسلح جدوجہد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک دلی میں یہ ہٹ دھرمی، رعونت اور اَنانیت برقرار رہتی ہے تب تک نہ صرف کشمیر ی لوگوں کا خون بہتا رہے گا بلکہ جو آٹھ لاکھ کے قریب فوجی یہاں جمع ہیں ،ان کا سکون بھی غارت ہوتا ر ہے گا۔اس کی تازہ مثالیں آج ہمارے سامنے آ رہی ہیں کہ جہاں ان کاؤنٹرز میں عسکری نوجوان کام آتے ہیں ،وہیں فوجی سپاہی اور پولیس اہل کار بھی خون میں لت پت دیکھے جا تے ہیں۔ گویا یہ دو طرفہ جنگ ہے جس میں دونوں اطراف سے نقصانات کی فصل کاٹی جا رہی ہے۔ دانائی اسی میں تھی کہ مرکزی سرکار ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے آگے آتی لیکن طاقت ، انانیت ، خطے میں اپنی بالادستی کے جنون سمیت ووٹ بنک سیاست اسے ہمیشہ یہ اچھا قدم اٹھانے سے روکتی رہی۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً مرکز کی جانب سے ایسے دکھاوے اور خالی خولی بیانات سامنے آتے رہے جن سے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کئے جانے کی پیش رفت کا تاثر ملتا ، تاہم دوسرے فریق کو سامنے نہ آنے دینے کی کھوٹی نیت سے مذاکرات کے لئے ایسی شرائط رکھی جاتی رہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا ۔سب سے پہلے پاکستان کو کشمیر میں چل رہی تحریک آزادی سے الگ تھلگ ہو نے کو کہا جاتا ، حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا کشمیر کازکے ساتھ سیاسی ، اخلاقی ، سفارتی سطح پر ہر ممکن طریقے پر دوش بدوش ہونا، اس مملکت کی فریقانہ پوزیشن کا اولین تقاضا ہے ۔ دلی کی طرف سے بیک بینی و دوگوش اسلام آباد کے کشمیر کے تعلق سے کردار کو دہشت گردی کا نام دینے کا مقصد صرف اور صرف جموں وکشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنا اور مسئلے کا حل ٹالنا ہے۔ انہی خطو ط پر کشمیری قیادت کو جب بات چیت کی پیش کش کی جاتی ہے ،اس میں اول انہیں کہا جاتاہے کہ’’ تشدد ترک ‘‘ کرو ، جیسے قائدین بندوقیں تانے فوج سے لڑ رہے ہوں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ بھارت مذاکرات کی پیش کش کشمیر حل کے لئے نہیں بلکہ معاملات کو اور زیادہ پیچیدہ بنانے اور وقت گزاری کے لئے کرتا رہاہے۔ حالات کے اس تناظر میں کشمیر کاز کو دبانے کے لئے ہر اوچھا حربہ آزمانا ، پُر امن احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنا ، ہزاروں نوجوانوں کو پابند سلاسل کرنا، سنگ باری روکنے کے نام پر پیلٹ اور بُلیٹ کا بے دریغ استعمال، پیرا ملٹری اور فوج کوعدالتی ہدایات کے باجود نت نئے اسلحہ و گولہ بارود سے لیس کرنا، اقوام عالم کو دھوکہ دینے کے لیے الیکشن کا بگل بجا نا، فوج کی طرف سے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فوج اور پولیس کی جانب سے ’’تیار ہونے‘‘ جیسے دھمکی آمیز بیانات دینا ، حریت نواز لیڈرشپ کی سیاسی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لئے انہیں سالوں جیلوں یا اپنے گھروں میں محصور کر کے رکھنا، یہ ہیں وہ اقدامات جن سے کشمیر کی صورت حال انتہائی گھمبیر بنا کر رکھ دی گئی ہے۔ کاش کہ دنیا سمجھ لیتی کہ یہاں سرکاری دہشت گردی کا ارتکاب ہو رہا ہے جب کہ اس کے باوجود یہاں کے دبے کچلے لوگ اپنے حق ’’حق خودارادیت‘‘ کے لیے سر بکف ہیں۔  اس زمینی صورت حال کے پیش نظر اقوام   عالم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر مسئلہ کے حوالے سے اپنا انسانی و اخلاقی فریضہ انجام دیں، کیوں کہ ریاست جموں وکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس کی ہمسائیگی میں تین حریف نیوکلیر طاقتیں ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔ اس وجہ سے کشمیر میں کوئی بے قابو گڑبڑ ہوئی تو پورے برصغیر میں آگ لگ سکتی ہے جس کی لپٹیں عالمی امن کو بھی بھسم کر سکتی ہیں۔ اس آگ کو بجھانے میں جس قدر اقوام عالم پانی کا استعمال کریں، اسی قدر کرہ ارض پر سب کا فائدہ ہو گا۔ اس لئے خود اپنے مفاد میں اقوام عالم کی یہ آہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیر کی جانب اولین توجہ دیں ، خاص کر برصغیر سے وابستہ تمام ممالک کا اس سلسلے میں خصوصی کردار بنتا ہے ۔ بدقسمتی سے مودی دور کے شروع ہوتے ہی برصغیر میں بدامنی، منافرت ، دھینگا مشتی ، سازشیں ہی وہ واحد طریقہ کار مانا گیا ہے جو پاک بھارت تعلقات کو خاصا بگاڑ رہاہے ۔ لگتا ہے کہ دلی کشمیر اور لائین آف کنٹرول کو ہمیشہ اُبال میں دیکھنا چاہتی ہے ، شاید اس وجہ سے کہ اسی سہارے ووٹ بنک سیاست کا پلڑا سنگھ کی طرف جھک جاتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو ، بہر حال جب تک ان دو ممالک کے درمیان تعلقات میں از راہ ِ مفاہمت بہتری نہیں آتی تب تک پورے برصغیر میں بشمول کشمیر امن قائم ہونا دیوانے کا خواب ہی ہو گا۔ کسی سیاسی دور اندیش رہنما کی یہ بات توجہ طلب ہے جس میں انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’یہ دونوں ممالک آپسی میل ملاپ میں جس قدر دوریاں پیدا کر رہے ہیں ، یہ اس چیز کی علامت ہے کہ ان دونوں ممالک کے حکمرانوں میں اپنے عوام کو فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں ہے، کیوں کہ اگر ان کے پاس حکمت و صلاحیت ہوتی تو وہ اس دیرینہ مسئلہ کو اس قدر بے جا طول نہ دیتے بلکہ سب سے پہلے اسی آہم مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتے، کیوں کہ اس ایک مسئلے کے سبب ’’آزاد‘‘ بھارت اور’’ آزاد‘‘ پاکستان اصل معنی میں ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی فلاح وبہبود کا ذریعہ بن سکتے ہیں، ہاں اگر ان سے کچھ حاصل ہو سکتا تو وہ قومی نقصان کے سوا کچھ نہیں ہو گا، ایک طرف ترقیاں ہو رہی ہوں گی اور دوسری جانب اپنے ہی ترقی کے درخت کو کلہاڑی سے کاٹ رہے ہوں گے۔آج کی تاریخ میں برابر یہی صورت حال دونوں ممالک پر منطبق ہوتی ہے۔ علیٰ الخصوص بھارت نے اپنی آزادی سے لے کر آج تک اونچی اڑانیں بھر نے کے جو دعوے کئے ، ان کا حاصل لفاظی کی کھیتی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج یہ ملک ترقی پہ ترقی کے سپنے مسلسل دکھا رہا ہے، سائنس و ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کے کارہائے نمایاں انجام دینے کی ڈینگیں ما رہا ہے لیکن آپ ذرا غیر جانب دارانہ نگاہ سے دیکھئے تو صاف صاف نظر آئے گا کہ یہاں کھلے عام جمہوریت کی مٹی پلید ہو رہی ہے ، انسانی حقوق کے جنازے اٹھ رہے ہیں ، آزاد خیالی پہ سنگینوں کے پہرے بٹھائے گئے ہیں ، اقلیتیں خوفزدہ ہیں ، خواتین پر ظلم وجبر ہورہاہے ، غنڈہ گردی کا راج ہے اور جو کوئی ترقی ہو بھی رہی ہے اس کا سارا ثمرہ دفاعی بجٹ کے کھاتے میں جا رہا ہے ،جب کہ عوام کو محنت و مشقت کے باوجود نان ِ شبینہ کا محتاج ہونا پڑ رہا ہے، انہیں بھوک ، بیماری اور ناخواندگی سے جوجھنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی لیڈر بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس فوجی طاقت بھی ہے، ایٹمی زور بھی ہے،اقتصادی خوش حالی بھی ہے، لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود انہیں ایک ایسے مسئلہ کے حل سے ڈر کیوں لگ رہاہے جس کے نپٹارے سے بھارت غیر محفوظ نہ ہوگا بلکہ ہر میدان میں اس کو چار چاند لگ جائیں گے ؟ امر واقع یہ ہے کہ کشمیر حل سے نہ صرف بھارت برصغیر میں طاقت ور ملک ہوسکتا ہے بلکہ اس کا پڑوسی ملک پاکستان بھی ترقیوں کی راہ پر گامزن ہو گا اور دو طرفہ امن اور خوش حالی کی فضا ئیں اتنی زیادہ تقویت پائیں گی کہ دونوں ملکوں کو اکیسویں صدی کی رواں تاریخ انہیں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ آگے جاتے دیکھے گی ،لیکن وائے افسوس! یہ دونوں ممالک کشمیر کے سبب آج رسہ کشی اور تناؤ کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں جب کہ ان دونوں کی رسہ کشی سے امر یکا اور اسرائیل ا پنا الو سیدھا کر رہے ہیں ۔بہرحال کشمیر کی ناگفتہ بہ صورت حال کو مزید نظر انداز کرنا دلی کے لئے اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے پر منتج ہونا طے ہے۔ اصولی بات یہ بھی ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کام حکمران اپنی مصلحتوں ، مجبوریوں یا مفادات کی وجہ سے نہ کر سکیں ،وہ باشعور عوام کر کے دکھاتے ہیں۔ شاید بھارت کے لئے وہ گھڑی آگئی ہے جب یہاں کے باشعور عوام کو یہی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ جموں وکشمیر کی نامساعد صورت حال سے نہ صرف ریاست کے لوگوں کا جینا دوبھر ہو رہا ہے بلکہ بہ حیثیت ٹیکس دہندہ ان کے خون پسینے کی کمائی نفرتوں اور جنگ وجدل کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، اس کے عوض وہ غریبی ، محرومی اور لاچاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روز گاری کے دلدل میں پھنس رہے ہیں ۔ اس جان لیوا مرض کا علاج ڈھونڈنے کے لئے دونوں ممالک سے وابستہ ذِی حس، ہوش مند اور حب الوطنی کے علاوہ حب انسانیت رکھنے والے لوگوں کو رائے عامہ منظم کر نے اور کشمیر حل کی منصفانہ آواز اُٹھانے کے لئے آگے آنا ہوگا ۔ یاد رہے مسائل جب بھی اور جہاں بھی جنم لیں تو عقل مندی اس میں مضمر ہوتی ہے کہ مسائل مسائل چیخنے کی بجائے ان کے قابل قبول حل کی طرف متوجہ ہوا جائے ، اس کے لیے آپسی تال میل، بحث و تمحیص اور محبت کی راہیں استعمال کر کے کرامتیں ہوسکتی ہیں ۔ اس کی بجائے اگر طاقت، تعصب ، قومی تفاخر اور گھمنڈ کے کند ہتھیار استعمال میں لائے جائیں تو مسائل اُلجھ ہی نہیں جاتے بلکہ یہ چیزیں افراد اور قوام کو احمقانہ پن کی آگ میں بھسم کر کے رکھ دیتی ہیں اور ہر فریق خسارے میں جاتاہے۔ کشمیر مسئلے کا حل یہ ہے کہ تینوں فریق حالات کی نزاکت سمجھ کر اور دنیائے امکانات کی کھڑکیاں کھول کر خلوص دل سے مثبت اور فیصلہ کن سوچ بچار کریں ، تب جاکر ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ کی کشمیر پر گفت وشنید کی پیش کش میں وزن آئے گا ، پاک صدر ممنون حسین کا کشمیر کوتقسیم کے نامکمل ایجنڈے سے جوڑنے کے دعوے میں کوئی معنویت پیدا ہوگی اور مزاحمتی قائدین کے لئے اپنے اصولی موقف کو کسوٹی پر چڑھانے کا موقع آئے گا۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply