آٹھ فٹ کا گھوڑا اور گجرات کا سفر (حصہ سوئم) ۔۔ معاذ بن محمود

دو گھڑی منظر تصور کیجئے۔

گاڑی ریورس ہوتی ہے۔ پیچھے ایک شخص ڈرائیور کو گائیڈ کرتا ہے۔

(پشتو میں)

رازا۔۔۔ رازا۔۔۔ رازا۔۔۔ رازا۔۔۔

ڈزززززز

بس

اردو ترجمہ:

آجاؤ۔۔۔ آجاؤ۔۔۔ آجاؤ۔۔۔ آجاؤ۔۔۔

ڈزززززز (آواز آتی ہے)

بس

اللہ بخشے خادم جان کو، یونیورسٹی کا سب سے خبیث طالب علم تھا۔ آج کل سعودیہ میں ہوتا ہے۔ بھورے بالوں نیلی آنکھوںسفید چمڑی والا جوان جس کے شر سے طالب علم چھوڑیں پروفیسر کرام بھی محفوظ نہ تھے۔ خادم جان کے بقول یہ ایک سچا واقعہتھا۔ کم و بیش ملتا جلتا واقعہ ہمارے ساتھ لاہور میں پیش آیا۔

ملتان سے نکلتے ہمیں کچھ ایسی دیر ہوئی کہ کامونکی کے قریب موٹروے سے جی ٹی روڈ اترتے اندھیرا چھا چکا تھا۔ گاڑی میں اسوقت میں، افضل بھائی، بھٹی صاحب اور روسی بھائی موجود تھے۔ روسی بھائی جہاں بیٹھے ہوں وہاں ایک روح قبض کرنے والا اورایک روح پرور ذکر ضرور ہوتا ہے۔ پہلا مدارس میں بچوں کے جنسی استحصال کا جبکہ دوسرا انگور کے خمیر زدہ شربت کا۔ استغفراللّٰہ۔ثم استغفراللّٰہ۔

بھٹی صاحب صرف مدارس کے مسائل کو نشانہ بنانے کے خلاف ہیں۔ مزیدبرآں وہ چالیس کا ہندسہ بھی پار کر چکے ہیں۔ طبیعتمیں کچھ ایسا ٹھہراؤ حاصل کر چکے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پرٹھہر جا چاچاکہتے پائے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ بات بات پرروسی بھائی کوٹھہر جا چاچاکہنے میں مصروف تھے۔ مدارس میں ہونے والے جنسی استحصال پر بات ابھی جاری ہی تھی کہاچانک گاڑی کے سامنے ایک انسان والا کھوتا آگیا۔ لوگ بغیر دیکھے کھوتے کو سڑک پار کروانے والوں کو خربان کہتے ہیں تاہم میراخیال ہے کھوتے کا شعور ایسے انسان سے بہتر ہوتا ہوگا جو بغیر دیکھے سوچے یا سمجھے جی ٹی روڈ پر کھوتے سمیت وارد ہوجائے۔ ایسےانسان پر کھوتے کو فوقیت حاصل ہونی چاہئے۔ ڈرائیونگ سیٹ باچیز کے زیر تشریف تھی لہذا بریک پر ایسا پیر دبایا جیسا محکمہزراعت نے آج کل مسلم لیگ ن پر دبایا ہوا ہے۔ مولویوں کی جانب سے جنسی استحصال کا موضوع تو رک گیا لیکن محسوس یوںہوا کہ اب ہمارے جنسی استحصال کی باری ہے کیونکہ گاڑی کی بریک تقریباً کام کرنا چھوڑ چکی تھی۔

موقع پر موجود حاضرین کو مژدہ سنایا۔ اندازہ ہوا کہ سب ٹھنڈ ماحول میں ہیں۔ کسی کے کان یا دیگر عضو پر جوں تک نہ رینگی۔ تھوڑیدیر بعد ہم بھی چسکے لینے میں لگ گئے۔ راستے میں کبھی کوئی پیادہ مجاہد تو کبھی کوئی چنگچی بردار غازی اچانک سامنے آکر بہادری کی بےمثال داستان رقم کرنے کی کوشش کرتا تاہم اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر تھا لہذا بچت ہوجاتی۔ اگلے ساڑھے تین گھنٹے مولانا طارقجمیل کے سیاسی کارناموں اور ایک بار پھر مدارس میں جنسی استحصال پر بات چلتی رہی۔ اتنے میں افضل بھائی نے اعلان کیا کہانہیں درد ہو رہا ہے۔ چند لمحے ہم مدارس کے واقعات کا افضل بھائی کے درد سے تعلق جوڑتے رہے جو یقیناً فطری فعل تھا تاہمافضل بھائی شاید معاملہ بھانپ گئے اور فورا بولے کہ بھیا سر میں درد ہو رہا ہے۔ بھٹی صاحب کی موجودگی میں کسی اور درد سر کا تصورہمارے لیے بھی درد سر ہی کے جیسا تھا بہرحال مرتے کیا نہ کرتے، برداشت کرنا پڑا۔

قریب اڑھائی گھنٹے افضل بھائی سردرد کے لیے گولی خریدنے کی دہائی دیتے رہے جبکہ دوسری جانب بھٹی صاحب متواتر زاہد کے گاؤںمیں موجود مارکیٹ سے گولی خریدنے کی گولی دیتے رہے۔ اس دوران پانچ سے چھ بار افضل بھائی کا میٹر شارٹ ہوا جس پر وہباقاعدہ چلانے لگے۔ ہم بار بار پوچھ کر کنفرم کرتے کہ بھیا درد سر ہی میں ہے ناں؟ کیونکہ طارق جمیل کے خلاف بات ہو اور خانصاحب کے متوالے کے سامنے ہو تو درد کم از کم سر میں نہیں بنتا۔ افضل بھائی ہر بار اس سوال پر موضوع بدل دیتے۔

بالآخر ہم زاہد کے گھر کے قریب بازار پہنچے۔ افضل بھائی فرماتے ہیں،یہ دیکھ کر میری آنت پھٹ گئی کہ بازار مکمل بند ہےایکایسے وقت میں جب بندے کا سر سرد سے پھٹ رہا ہو، میڈیکل سٹور سمیت تمام بازار بند دیکھنے پر آنت پھٹنا بہرحال کم ہے۔ہم اس مخمصے میں تھے کہ تعزیت کس بات کی کرنی ہے، سر پھٹنے کی یا آنت پھٹنے کی۔ دوسری جانب بھٹی صاحب جو پچھلے تین گھنٹےسے ہمیں اس مارکیٹ سے ڈسپرین خریدنے کی تلقین کر رہے تھے، کمال سکون اور طمانیت کے ساتھ براجمان تھے جیسے خانصاحب کی پرفارمنس پر ان کے ووٹر آج پرسکون ہیں۔ بھٹی صاحب عام حالات میں چونکہ اچھے آدمی ہیں لہذا انہیں بیغیرت کہنازیادتی ہوگی۔ کسی طرح ہم پھٹی آنت اور پھٹے سر والے پھٹے افضل صاحب کو لے کر زاہد کے گھر پہنچے۔ ویسے تو زاہد کی شخصیتایک الگ مضمون کی متقاضی ہے، پھر بھی چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں۔

زاہد برلاس ختم نبوت کا مجاہد ہے۔ پہلے اٹلی میں ہوا کرتا تھا اب سپین ہوتا ہے۔ زاہد مسلم لیگ نواز گروپ کا اہم سرغنہ ہے۔گجرات میں زاہد بمع اہل و عیال پاکستان تحریک انصاف کے علاقائی چئیرمین کی ضمانت ضبط کروا چکے ہیں۔ زاہد شدھ پٹواری اورشدھ تر غازی ہے۔ مجھے سے دو سال ناراض رہ چکا ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ میں زاہد سے دو سال ناراض رہا۔ پھر ایک رات فونآیا کہ ابو ظہبی ائیرپورٹ پر ہوں سوچا ناراضگی مٹا لی جائے، اور یوں ناراضگی بس اچانک ہی ختم ہوگئی۔ بھٹی صاحب کا عاشقہے، انہی کے دم سے ہماری دم پر پیر رکھنے سے گریز کرتا ہے وگرنہ ہم لبرلز کے ساتھ اٹک لڑائیاں لینا زاہد بھائی کا پسندیدہ ترینمشغلہ ہے۔ گجرات میں پاکستان تحریک انصاف کے علاقائی دفتر کے عین سامنے کروڑوں روپے کی محل نما کوٹھی صرف اس لیےبنوائی ہے تاکہ انہیں مشکل میں ڈالا جا سکے۔ بلا کا محبت کرنے والا اور مہمان نواز جوان ہے جو یا تو بولتا نہیں مگر جب بولتا ہے توسامنے والا خاموش رہنا مناسب سمجھتا ہے۔

زاہد کے محل میں پہنچنے پر ہمیں سب سے اوپر کھلے آسمان تلے لے جایا گیا جہاں چائے پانی، سگریٹ اور دیگر نوش کی جانے والیخداوند پاک کی جانب سے عطاء شدہ نصابی و غیر نصابی نعمتوں کا بندوبست موجود تھا۔ موسم انتہائی حسین تھا۔ کھلے آسمان تلےچارپائیاں بچھی پڑی تھیں۔ ایک عدد پروفیشنل مساجر المعروف ماہر مالشیات ہم تھکے ہارے مہمانوں کی خدمت واسطے تیار بیٹھا تھا۔

پہلی باری افضل بھائی کی تھی جو اس وقت درد سر کے ہاتھوں مکمل طور پر پھٹ چکے تھے۔ اب تک ان کی آہ و فغاں بلند ہوچکیتھی۔ افضل بھائی ایک عدد منجھی شریف پر درد کے مارے الٹے لیٹ چکے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر مالشی بھیا کی ہمدردیبیدار ہوئی اور انہوں نے افضل بھائی کی چارپائی کا رخ کیا۔ افضل بھائی اس وقت تکآہ، اوہ، اوئیوغیرہ کے غیر ارادی وردمیں مصروف تھے۔ مالشی بھائی نے افضل بھائی کے جسم پر ہاتھ ڈالا اور مالش شروع کی۔ افضل بھائی کے کراہنے پر کوئی خاص اثرنہ آیا الا ایک موقع کے۔

مالش کے دوران ماہر مساجیات نے ایک عجیب حرکت کی۔ وہ افضل بھائی کو دابتا دباتا ایک ایسی ہئیت پر آیا جہاں مالشی اورافضل بھائی کا ماتھا ایک دوسرے سے لگا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے آج عمران ہاشمی کسی گجراتی فلم میں ہیرو بنا ہوا ہے جس کےبالمقابل افضل سیٹھار صاحب ہیروئن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مالشی بھائی نے بوس و کنار درجے کی قربت پاتے ہی ادھر ادھر کیحرکت کی بجائے افضل بھائی کی گردن پر دو انگلیاں رکھ دیں۔ ہم جو یہ منظر دیکھتے ہوئے پہلے خوف اور شرم محسوس کر رہے تھے،اب دلچسپی محسوس کرنے لگے۔ مالشی کی انگلیاں افضل بھائی کی غالبا شہہ رگ پر پڑیں اور کچھ سیکنڈ بعد افضل صاحب شٹڈاؤن ہوگئے۔

للعجب۔۔۔ یا خدا! یہ کیا ماجرا ہے؟

کوئی پندرہ بیس سیکنڈ بعد جو انگلیاں ہٹیں تو افضل صاحب ایسے جھٹکا لے کر سٹارٹ ہوئے جیسے ان کی گاڑی سٹارٹ ہو رہی تھی۔پوچھا کیا ہوا تھا تو کہنے لگے دماغ پر اندھیرا چھا گیا اور کچھ دیر بعد اچانک سب بحال ہوگیا۔ ہم تھے کہ انگشت بدنداں!

کچھ ہی دیر میں افضل بھائی پھر کراہنے لگے۔ مالشی نے ایک بار پھر وہی حربہ آزمایا مگر فرق ندارد۔ اب فیصلہ ہوا کہ افضل بھائی کوہسپتال لے جایا جائے گا جہاں ان کی مناسب سلائی ہوگی۔ بھٹی صاحب، زاہد اور دو مزید افراد کی جمعیت میں روانہ ہوئے۔ اسدوران میں اور روسی بھائی سگریٹ کش بمبار بنے رہے۔ کچھ دیر بعد زاہد اور بھٹی صاحب واپس آئے۔ افضل صاحب تب تکہسپتال ٹیکہ خوری میں مصروف رہے۔

ماہر مساجات نے اب بھٹی صاحب کی چارپائی کا رخ کیا۔ بھٹی صاحب گھبرائے ہوئے لگتے تھے۔ مالشی بھیا نے بھٹی صاحب کابدن دبانا شروع کیا تو بھٹی صاحب کا چہرہ غیر مبارک کسی حد تک تسکین زدہ معلوم ہوا، تاہم ماہر مالشیات متواتر ایک ہی بات کہےجا رہا تھاسر آپ ڈھیلی نہیں چھوڑ رہے۔ جس وقت مالشی بھیا بھٹی صاحب کے پٹ دبا رہا تھا، ایک بار پھر یہی شکایت کی جسپر بھٹی صاحب نے تاریخ سوز فقرہ ارشاد فرمایا۔ گویا ہوئےبیٹا اس حال میں شریف آدمی کبھی جسم ڈھیلا نہیں چھوڑتا۔ دروغبرگردنِ باچیز۔

ہماری غیر نصابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ بھٹی صاحب کی مالش کا دور تمام ہوا۔ اب کیلے کے چھلکے پر سے گرنے کی باری ہماریتھی۔ چونکہ میں ایک باکردار فرد واقع ہوا ہوں لہذا ہوش و حواس قائم رہتے کسی مرد کی اتنی دیر تک دو میٹر مدار میں یہ زندگی بھر کیپہلی مداخلت تھی۔ مزید برآں جس قدر مردانہ ہاتھ اس روز پڑے زندگی بھر اس قدر مردانہ دراندازی محسوس نہ ہوئی۔

بس بہن۔۔۔ جو اللہ کی مرضی

اسی حال تک پہنچا جہاں بھٹی صاحب نے تاریخ سوز فقرہ ارشاد فرمایا تھا تو بھٹی صاحب کی حق سچ سوچ سے متفق ہوئے بنا نہ رہسکا۔ واقعی ڈھیلا چھوڑنا بہت مشکل ہے عین اس وقت جب کسی نامحرم کے ہاتھ انسان کے پٹ پر ہوں۔ استغفراللّٰہ۔ ثماستغفراللّٰہ۔

ماہر مالشیات نے میرے نرخرے پر بھی کرتب دکھانے کی کوشش کی تاہم ناکام رہا۔ محسوسات کچھ یہ رہے کہ شہہ رگ یا جو بھیرگ تھی اس پر دباؤ پڑتے ہی دماغ پر اندھیرا چھانا شروع ہوا۔ میرے معاملے میں یہ تجربہ پینک اٹیک پر منتج ہوا اور میرا سانسخراب ہونے لگا جس پر ماہر مالشیات نے دبوچی گردن چھوڑ دینے میں عافیت جانی۔ کچھ ٹھہر کر پھر کوشش کی مگر ایک بار پھرناکامی۔

یہاں سے فراغت پا کر زاہد نے ہمیں کھانا کھلایا۔ کھانے تک افضل بھائی جسمانی طور پر ہسپتال سے واپس پہنچ چکے تھے تاہم ذہنیطور پر ابھی تک سر درد کے زیر اثر آہیں بھر رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہیں کچھ کھلایا پلایا اور پھر کمرے میں لے جا کر سلا دیا۔روسی بھائی نے بستر بھرائی مہم میں افضل بھائی کا ساتھ دیا کیونکہ وہ بھی پچھلی رات ہمارے انتظار میں جاگتے رہے تھے۔ میں زاہداور بھٹی صاحب کھانے کے بعد واپس محل میں پہنچے جہاں صبح فجر کے وقت تک زاہد سوتا رہا، بھٹی صاحب اور میں باتیں کرتےرہے جبکہ ماہر مالشیات اور ایک اور برادر بٹ صاحب ایک چاچے کے ساتھ شغل لگاتے رہے جو حتی الامکان غیر نصابی سرگرمیوںسے دور رہنے کی کوشش میں تھا جبکہ مذکورہ بالا احباب انہیں نندیا پور بھیجنے کے درپے تھے۔

دوپہر بارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی۔ افضل بھائی نے بوجہ دفتری معاملات اسلام آباد کا چکر لگانا تھا۔ ناشتہ کر کے زاہد نے مکینک کابندوبست کر کے دیا جس نے تین گھنٹے دلجمعی سے کام کرنے کے بعد خوشخبری سنائی کہ اگلے دائیں پہیے کے بریک شو گھسائی کی تابنہ لا کر چل بسے ہیں لہذا اس نے فی الوقت بریک ایک پہیے پر سیٹ کر دی ہے۔ بریک کمزور تھی مگر پچھلے روز سے بہرحال بہترتھی۔ افضل بھائی کے جانے کے بعد ہم نے کچھ دیر اور گپیں ہانکیں اور پھر زاہد سے اجازت لے کر نکل پڑے۔

ہمارا اگلا پڑاؤ لاہور تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply