مولانا احمد سعید ہزاروی کی رحلت ۔۔محمد فیاض خان سواتی

جس روز حضرت مولانا سید غلام کبریا شاہ کی وفات ہوئی ، اسی روز گوجرانوالہ کے ایک اور بزرگ اور معمر عالم دین حضرت مولانا احمد سعید ہزاروی بھی طویل علالت کے بعد رحلت فرما گئے ہیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

” اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی ۔”

Advertisements
julia rana solicitors

مولانا ہزاروی ایک جید عالم دین ، باعمل مبلغ اور حق گو بزرگ انسان تھے ، ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے اللہ رب العزت نے انہیں حسن و جمال اور صفات و کمال سے نواز رکھا تھا ، سرخ و سفید رنگت ، نیل گون خوبصورت آنکھیں ، وجیہہ اور بارعب شکل اور قدرے دراز قد شخصیت کے سنجیدہ اور پر وقار مزاج کے متواضع آدمی تھے ، تقریباً نصف صدی تک کا طویل ترین عرصہ ” بٹ والی جامع مسجد ” باغبانپورہ گوجرانوالہ میں امامت و خطابت ، دینی ، رفاہی ، سماجی اور سیاسی خدمات بڑی تن دہی ، لگن اور خیر خواہی کے جذبہ سے انجام دیتے رہے ۔
ہمارے حضرات شیخین کریمین رح کے معتمد ، دیرینہ اور مخلص ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ، اکثر و بیشتر جامعہ نصرۃ العلوم میں ان سے ملاقات کے لئے تشریف لایا کرتے تھے ، اور ان سے بے تکلف گفتگو فرمایا کرتے تھے ، ہم بچپن سے انہیں اسی طرح کثرت سے آتے جاتے دیکھتے رہے تھے بلکہ ان سے اتنے مانوس ہو گئے تھے کہ ان کی آمد پر جب والد ماجد رح گھر سے ان کے لئے چائے لانے کے لئے فرماتے تو ان کی آمد کی اطلاع کے لئے ہم گھر جا کر ان کا صرف اتنا سا معصومانہ تعارف ہی کراتے کہ
” باہر مولوی بلا آیا ہے ”
یہ ان کی آنکھوں کی وجہ سے ان کا تعارف علاقہ بھر میں مشہور تھا ۔
وہ عیدین کی نماز بھی ہمیشہ میرے والد ماجد رح کے پیچھے جامع مسجد نور میں ہی آکر اداء فرمایا کرتے تھے ، احقر کے ساتھ بھی بڑی محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے بلکہ گزشتہ ربع صدی سے ان کا یہ معمول رہا کہ وہ عیدین کی نماز میرے ہی پیچھے اداء فرماتے تھے ، عمر رسیدگی اور عوارضات کی بناء پر گزشتہ سے پیوستہ عید کی نماز سے پہلے جب ابھی میں تقریر کر رہا تھا ، دیکھا کہ وہ اپنے کسی عزیز کے کندھوں پر ہاتھ کا سہارا لئے تشریف لائے اور ہمیشہ کی طرح مسجد کے ہال میں بائیں جانب کی پچھلی صفوں میں بیٹھ کر تقریر سننے لگے ۔
انہیں ملکی سیاست میں بھی خاصی دلچسی تھی ، جوانی کے زمانہ میں بڑی گرجدار مسلکی اور سیاسی تقریریں کیا کرتے تھے ، اور اپنی خدا داد صلاحیتوں اور قربانیوں کی بناء پر ایک عرصہ تک وہ جمعیت  علماء اسلام گوجرانوالہ شہر اور ضلع کے امیر بھی رہے ، مزاج تحریکی تھا ، اسی لئے تمام اہم ملکی تحاریک میں بھی پیش پیش رہے ، سن 1953 ع اور سن 1973 ع کی تحریک ختم نبوت ، سن 1976ع کی تحریک جامع مسجد نور ، سن 1977ع کی تحریک نظام مصطفٰی اور دیگر جملہ اہم ملکی تحریکوں میں ہمیشہ علماء حق کے قافلہ کے شانہ بشانہ رہے ۔
ان کی وفات کے روز جنازہ سے پہلے میں اور برادرم محمد ریاض خان سواتی ، مولانا ظفر فیاض اور میاں راشد ان کے گھر گئے تو ان کے اکلوتے بیٹے نے ہمیں بتایا کہ وہ آخر میں بار بار یہ وصیت فرماتے رہے کہ
” مجھے حضرت صوفی صاحب رح کے قریب دفن کرنا ”
اور اللہ نے ان کی یہ آرزو پوری کردی ہے کہ ان کے قریب ہی قبر کے لئے جگہ بن گئی ہے ۔
مولٰی کریم ان کی زندگی کی تمام مساعی جمیلہ کو اپنی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلٰی علیین میں ان کا مقام بنائے ، آمین ۔
کل شیئ ھالک الا وجھہ

Facebook Comments

محمّد فیاض خان
ایک آزادتعصب سے بالاتر لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply