• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • نئے انتخابات کی تیاریاں اور اصل مسائل سے غافل سیاسی قیادت

نئے انتخابات کی تیاریاں اور اصل مسائل سے غافل سیاسی قیادت

نئےانتخابات کی تیاریاں اور اصل مسائل سے غافل سیاسی قیادت
طاہر یاسین طاہر
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے صوبائی علاقوں سے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ اگرچہ ابھی تک” محفوظ ہے “مگر توقع ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں سنا دیا جائے گا۔اس فیصلے کے آئینی و قانونی پہلووں پر بحث کرنے کے لیے کئی مشاق قانون دان تیار بیٹھے ہیں۔لیکن اس امر میں کلام نہیں کہ پانامہ کیس فیصلے کے آئینی و قانونی جو بھی پہلو ہوں،اور پی ٹی آئی کے وکلا اورنون لیگ کے وکلاکے درمیان ،اس فیصلے پر جیسی بھی بحث ہو،بہر حال یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی تا دیر یاد رکھا جائے گا۔بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ فیصلہ پاکستانی سیاست کے کسی نئے رخ کا مظہر بھی ہو۔اس حوالے سے سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کی بھی گہری نظر ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ روز سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے لاہور میں جارحانہ خطاب کیا۔اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ آئندہ آر اوز کا الیکشن نہیں مانیں گے۔ ان کا واضح اشارہ 2013 کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی طرف تھا۔اس حوالے سے پیپلز پارٹی پہلے بھی کہتی رہی کہ آر اوز نے ان کی کچھ سیٹیں خراب کی ہیں،جبکہ پی ٹی آئی تو الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے ایک طویل دھرنا دینے کے علاوہ 35 پنکچر کی بات تواتر سے کرتی ہے۔جس سے 2013 کے انتخابات پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔سابق صدر نے لاہور میں اپنے کارکنوں سے خطاب کے دوران میں مزید کہا کہ اب ہماری ہتھکڑیاں اتر چکی ہیں،ہم میدان میں آئیں گے تو لگ پتہ جائے گا۔مخلافین کو بتائٰن گے کہ الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے نیز انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں،بلاول اور بے نظیر کی بیٹیاں اب میدان میں ہیں۔الیکشن شفاف بنانے کے لیے تمام پارٹیوں سے رابطہ کریں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماوں کا کہنا ہے کہ سابق صدر کی لاہور آمد سے نون لیگ پریشان ہے۔
دوسری طرف حیدرآباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ سی پیک کے فائدے پورے ملک کوپہنچ رہے ہیں، بلوچستان ترقی کی جانب گامزن ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حیدرآباد میں بھی دہشت گردی کوختم کردیاہے، کراچی دہشت گردی کا شکارتھا، آج وہاں امن اورسکون ہے، دہشت گردی کی کمرتوڑدی ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2013تک ملک میں بے چینی اوراضطراب تھا لیکن اب ایک نیا پاکستان بن رہا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’وہ وقت دورنہیں جب ملک سے مکمل بے روزگاری کاخاتمہ ہوجائےگا، حیدرآباد میں اچھے تعلیمی ادارے اوراسپتال بنیں گے۔انہوں نے استفسار کیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بھی رہی، دیگر جماعتوں کی حکومتیں بھی ملک میں رہیں لیکن ان کے دور میں موٹروے کیوں نہیں بنا؟
وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے دورمیں حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں نہیں بنی، حیدرآباد میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پینے کاصاف پانی نہیں۔کراچی کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’کیا وجہ ہوئی کہ کراچی دنیا سے کٹ گیا؟ دہشت گردی کی وجہ سے کوئی کراچی آنے کوتیارنہیں تھا، کراچی کے حالات بہتر ہونے پرسرمایہ کاروں کااعتماد بحال ہوا۔انہوں نے کہا کہ کراچی کو ملک کا بہتر شہر بنائیں گے، کراچی پھولے پھلے گا تو پوراملک ترقی کرے گا۔وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد کے میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے 50 کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا اور حیدرآباد کے عوام کو ہیلتھ کارڈ اور میٹرو بس کی خوشخبری سنائی۔وزیراعظم نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ جلد ہی اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا جبکہ یونیورسٹی کے لیے فوری طور پر 100 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بین الاقوامی معیار کا ایئرپورٹ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
یہ سیاسی گہما گہمی بے شک آنے والے عام انتخابات کی تیاری ہی ہے۔نون لیگ وفاق اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ موجود ہے۔ وزیر اعظم بے شک سندھ اور کے پی کے ،کے تیز رفتار دورے کریں گے اور ورکرز کنونشز بھی ہوتے رہیں گے۔ ان دوروں میں وزیر اعظم موٹر ویز،میٹرو ،گوادر اور سی پیک کا تذکرہ فاتحانہ انداز میں کرتے ہوئے سیاسی گمراہی ضرور پھیلائیں گے۔ مگر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بجلی کی لوڈشیڈنگ جو کہ گرمیوں کی آمد سے پہلے ہی شروع ہو چکی ہے، اس کے لیے حقیقی اقدامات اٹھانے کی طرف نہیں جائیں گے۔اسی طرح زرداری صاحب 2013 میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کو آر اوز،اور دہشت گردوں کی جانب سے پیپلز پارٹی کے جلسوں پر حملے کی دھمکیوں کو اپنی شکست کا جواز بناتے رہیں گے مگر اصل مسائل اور کوئی نئی اقتصادی و تعلیمی پالیسی دینے سے وہ بھی گریز اں ہی ہیں۔ نئی سیاسی حرکات ملک میں سیاسی ہلچل تو پیدا کر دیں گی،اور ایک جمہوری معاشرے میں اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی لگی بندھی وارداتوں کے علاوہ حقیقی پالیسی دینے میں ناکام ہی نظر آتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے پاس بھی دھاندلی اور پانامہ کے سوا ابھی تک تازہ کچھ نہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ کی طرح کسی نئے زاویے سے مذہبی جذبات انگیخت کر کے واردات ڈالنے کی کوشش میں رہیں گی۔ اصل مسئلہ،بیروزگاری،توانائی بحران،مہنگائی اور بالخصوص دنیا میں آنے والی سیاسی،عسکری و معاشی تبدیلیاں ہیں، جن کی بابت تینوں بڑی پارٹیاں خاموش ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply