تھر کے مور

مور کو خوبصورتی، خوش قسمتی اور مقدس علامت مانا جاتا ہے۔ شاعروں اور مصوروں نے متاثر ہوکر ا سے اپنے گیتوں اور فن پاروں میں محفوظ کیا ہے۔
کبھی کبھار صحرائی ٹیلوں اور گھروں میں اکثر مور رنگ بکھیرتے نظر آجاتے تھے مگر اب چند ہی ایسے گاؤں ہیں جہاں بارش کی آمد سے پہلے چیخ چیخ کر آگاہ کرنے والا یہ پرندہ بچا ہو۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مور اسی صحرائی علاقے میں پائے جاتے ہیں۔صوبہ سندھ کا صحرائے تھر بنجر ہونے کے باوجود اپنے آپ میں بہت دلکش ہے۔ خاص کر یہاں کے حیوانات ، اوران حیوانات میں بھی سرفہرست ہے مور ۔
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے صحرائے تھر کے مور موت کے شکنجے میں گرفتار ہیں اور پچھلے انیس بیس دنوں میں 100سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ماجرہ کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ ان میں ”رانی کھیت “ نامی بیماری پھوٹ پڑی ہے ۔ اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس صحرا سے ختم ہی نہ ہوجائیں۔
موروں کی ہلاکت کی سب سے پہلی اطلاع ملی تھر کے علاقے مٹھی سے ۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے کئی مور ہلاک ہوگئے۔ محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع ملی تو انہوں نے کئی دن تحقیق میں گزار دیئے ۔ اسی دوران کچھ ماہرین نے بتایا کہ موروں کو رانی کھیت کا جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔
اس وقت بھی تھرپا رکر کے پیراکی ، تھرپارکر ضلع کی یونین کونسل کلوئی،بھٹارو ،مہرانو اور کھیتلاری میں یہ وبا ء پھیلی ہوئی ہے اور گاوٴں خان محمد لاشاری ،بابن کوہ اور گرڑابہ کے موربھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر فوری طور پر مور بچاوٴ مہم میں تیزی نہ لائی گئی تو صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر مور ہلاک ہوسکتے ہیں۔تھر کے صحرا میں فطری حسن کے شاہکار موروں کو بیماری کی ایسی نظر لگی کہ کھلتے چہرے بھی اداس ہوگئے۔ موروں کی ہلاکت سے غریب لوگوں کے کچے گھروں کے آنگن بھی ویران ہوگئے ۔
گائوں کنگالس کی ماروی اپنے پالتو مور کے لیے انتہائی غمگین ہے ۔ رانی کھیت کی بیماری میں مبتلا مارو نامی یہ مور اسے بہت عزیز ہے مگر بیماری نے اسے جاں بہ لب کردیا ہے ۔ اپنے چہیتے مور کو بیمار دیکھ کر ماروی بھی بے حال ہے۔اس صحرا میں آج کل ماروی کا مارو ہی نہیں بلکہ درجنوں دیہات کے سینکڑوں مور ،رانی کھیت کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ مگر متعلقہ اداروں کو نہ تو ماروی کے آنسو دکھائی دیتے ہیں ، نہ ہی وہ اس حوالے سے کچھ کرتے نظر آتے ہیں ۔
مور کی آواز سریلی نہیں ہوتی۔ لیکن تولیدی زمانے میں اس کی آواز میں رعنائی آجاتی ہے مور جب کبھی بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ محسوس کرتاہے تواپنی آوازسے اس کی اطلاع دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ قدرت نے خوبصورت پروں کے تحفے سے صرف نر(Male) مور کو نوازا ہے۔ جبکہ مادہ میں دنبالہ نہیں پایاجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک کلغی کے پر ہیں وہ نر اور مادہ دونوں میں پائے جاتے ہیں مور اپنے جن پروں پر نازاں ہوتا ہے وہ تین سال کی عمر میں مکمل لمبائی حاصل کرتے ہیں۔لیکن ہر برس اگست اور ستمبرکے مہینوں میں وہ پروں(Feathers) کو بدلتا ہے۔ اس طرح پرانے پر جھڑ جاتے ہیں اورنئے پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان پروں کوعوام اپنے گھروں میں آرائش وزیبائش کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس کے پر مسلم گھرانوں میں بھی ایک خاص احترام سے رکھے جاتے ہیں۔ درگاہوں میں مورچل بنایا جاتا ہے۔ اس کے پر مذہبی کتب میں رکھے جاتے ہیں اورمختلف آرائشی مصنو عات کی تیاری میں اسکا استعما ل کثرت سے رائج ہے۔ جوانسان کی جمالیاتی حِس کی تسکین کاسامان مہیا کرتے ہیں کیونکہ خوبصورت اشیا ء اورحسین مناظر کے دیدار سے لطف اندوز ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے ، صحیح مسلم میں ارشاد ہے کہ ’’خدا خود جمال والا
ہے اور جمال کوپسند کرتاہے۔‘‘

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply