ریاستی مفاد جائے بھاڑ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

برج الخلیفہ پر پاکستانی پرچم سجائے ، اور کبھی بھارتی ترنگے کو لہرائے دبئی والے کس کے ساتھ ہیں ؟یہ دونوں تصویریں دیکھنے کے بعد ہر ذی شعور کے ذہن میں ایک ہی سوال ابھرے گا کہ کیا دبئی کے شیخ ہمارے ساتھ ہیں یا ان کے دل بھارتیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ان کی ہمدردیاں پاکستانیوں کے ساتھ ہیں یا بھارت ان کی اولین ترجیح ہے۔
تو جناب والا اب ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے گا ، بین الاقوامی تعلقات کے مضمون کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوتے ہوئے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں
دبئی والے نہ پاکستان کے ساتھ ہیں اور نہ ہی وہ بھارت کے ساتھ ہیں ، وہ بس اپنے مفادات کے ساتھ ہیں ، جب ان کے مفادات کا مرکز بھارت ہو گا تو پھر برج الخلیفہ پر ترنگے کا عکس ہی نظر آئے گا ، لیکن اگر ان کے مفادات پاکستان سے وابسطہ ہوں گے تو برج الخلیفہ پر سبز ہلالی پرچم گھن گرج کے ساتھ لہرا رہا ہو گا، اور اگر دونوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں مفاد ات ہوں گے تو پھر بھارتی یوم جمہوریت پر ترنگا اوریوم پاکستان پر پاکستانی پرچم کے رنگ میں سارا کچھ رنگا ہو گا۔
اس کی ایک سیدھی سادھی سی وجہ ہے کہ ریاستوں کے مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے ، ریاستوں کے مفادات ہوتے ہیں ،جو ریاست ایک وقت میں آپ کی دشمن ہوتی ہے اسے اگلے لمحے دوست بھی بنایا جا سکتا ہے کہ جب مشترکہ مفادات نظر آ رہے ہوں ، اس کی عملی تصویر دبئی ہے کہ جو ایک وقت میں پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات رکھنا چاہتا ہے، ایک طرف پاکستان میں سرمایہ کاری کررکھی ہے تو دوسری جانب بھارت میں بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے
لیکن ہم ہیں کہ جذبات میں بہہ جاتے ہیں ، ایک دم ایک دوسرے کوکافر کافر اور ملک دشمن قرار دینا شروع کر دیتے ہیں ، اگر کوئی ایران کو برا کہے گا تو سب بولیں گے کہ اس کا تعلق اہلحدیث یا پھر سنی فرقہ سے ہے اور اگر کوئی سعودی عرب کے متعلق حقائق سامنے لائے گا تو اس کا تعلق شیعہ فرقے سے جوڑ دیا جائے گا
ہم نے جس چیز کوسب سے آخر میں رکھا ہے وہ ریاستی مفاد ہے ، دبئی ہو یا سعودی عرب ، ایران ہو یا قطر تمام ممالک بھارت سے تعلقات بڑھا رہے ہیں، اگر ہم اپنے پیمانے پر پرکھیں تو ان ممالک کو تو بھارت سے سلام تک نہیں لینا چاہیے تھا ، کیونکہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے ہمیں دو ٹکڑے کیا ، اور یہ تمام مسلمان ممالک ہیں اور دوسرا ہم اپنے آپ کو امت مسلمہ کا قلعہ قرار دیتے ہیں ، اس لیے ان کی نظر میں بھارت سے ہر ناطہ ، تعلق ، رشتہ حرام ہونا چاہیے کہ جیسے ہم سعودی اور ایرانی پیار میں کرتے ہیں
لیکن دنیا کے دوسرے ممالک دماغ سے سوچتے ہیں جذبات کی رو میں نہیں بہتے ، ایران اور سعودی عرب کے گن گانے والے اور پاکستان سے پہلے ایران اور سعودی عرب کی حفاظت کے اعلان کرنے والے ذرا دبئی کی حکمت عملی کا ایک جائزہ لے لیں ، دبئی نہیں تو سعودی شاہی خاندان کا اپنا قبلہ ماننے والے پاکستانی سعودی فرما روا کے دورہ بھارت میں اربوں کے معاہدوں پرہی ایک نظر ڈال لیں ، ایران کو اپنا گھر قرار دینے والے پاکستانی چاہ بہار پر ایران بھارت گٹھ جوڑ کو ہی دیکھ لیں۔
لیکن نہیں صاحب ہمارا عقل سے کیا کام ، ریاستی مفادات سے کیا لینا دینا ، ہم تو جذباتی قوم ہیں ، ایران سعودی عرب جو مرضی کر لیں بطور مسلمان ہم تو ان کے ساتھ ہیں بلکہ ان کی حفاظت میں ان سے بھی آگے ہیں ،یہ سطور لکھتے میرے موبائل پر خبر آئی کہ ایک اور پاکستانی شہری کا سعودی عرب میں سر قلم کر دیا گیا ، سعودی عرب میں پاکستانی خواجہ سراؤں پر ہونے والا ظلم بھی سب کو یاد ہو گا ، ایران میں غیر قانونی داخل ہونے والے پاکستانیوں کو سیدھی گولیاں ماری جاتی ہیں لیکن کیا کریں صاحب
ہم تو سعودی عرب کا محافظ ہیں
ہم تو ایران کے سپاہی ہیں
ریاستی مفاد جائے بھاڑ میں۔۔۔۔۔

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply