سیرت صدیق رضی اللہ عنہ

سیرت صدیق رضی اللہ عنہ
تحریر: نعیم الدین جمالی
آپ کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکر، صدیق اور عتیق لقب تھا، والد کا نام عثمان، کنیت ابو قحافہ، اور آپ کی والدہ کا نام سلمی کنیت ام الخیر تھی،
آپ کے والد ماجد شرفائے مکہ میں سے تھے،
آپ کی والدہ ماجدہ کو ابتداءً ہی اسلام لانے کی توفیق نصیب ہوئی،
حضرت ابوبکر صدیق رضہ اسلام سے قبل ایک متمول تاجر تھے، دیانت داری، راستبازی اور امانت آپ کا خاص شہرہ تھا، آپ کی علم وتجربہ کی وجہ اہل مکہ نہایت معزز سمجھتے تھے،
جب آپ علیہ السلام کو خلعت نبوت عطا ہوا اور آپ نے مخفی طور پر احباب مخلصین رازدانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا تو مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، اور اسلام قبول فرمایا.
آپ نے اسلام لاتے ہی دینِ اسلام کی نشر واشاعت کا سلسلہ شروع کردیا، آپ کی دعوت پر صحابہ کی ایک کثیر جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی، جو اسلام کے تاباں ودرخشاں ستارے ہیں،
آپ علیہ السلام نے جب مکہ میں اعلانیہ دعوت کا پیغام شروع کیا تو کفار مکہ نے ایذا رسانی شروع کردی۔ اس بے بسی کی تیرہ سالہ زندگی آپ حضور کے دست بازو بنے رہے، رنج وراحت میں شریک کار رہے، مکہ کی ابتدائی زندگی میں جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں اکثر غلام اور لونڈیاں تھیں ۔جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجہِ ظلم وستم میں گرفتار تھے، ان کو طرح طرح کی تکالیف دی جارہی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضہ نے ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفاکار مالکوں سے خرید کر آزاد کرایا.
مشرکین نے ابتداء مسلمانوں کی قلیل جماعت کو چنداں اہمیت نہ دی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے تو انہوں نے نہایت سختی سے اس تحریک کا سد باب کرنا چاہا اور تکلیف رسانی میں مزید تیز ہوگئے ۔تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثاروں کو اس مصیبت میں مبتلا پایا تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی، حضرت صدیق رضہ بھی باوجود جاہ وجلال کے، مشرکین کے ظلم وجبر سے محفوظ نہ تھے، آپ نے بھی اجازت طلب کی اور رخت سفر باندھا، لیکن مقام برک النعما پر ابن الدغنہ نے آپ کو روک دیا اور وہ تاریخی جملے کہے جو حضرت خدیجہ رضہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہے تھے،ابن الدغنہ کی امان میں آپ واپس تشریف لائے اور علی الاعلان تلاوت وعبادت میں مشغول ہوگئے،
لیکن آپکی پر سوز تلاوت سے تنگ آکر ابن الدغنہ نے بھی امان سے ہاتھ کھینچ لیا، تو کفار کے ستم پھر روز بروز زیادہ ہونے لگے ، آپ نے دوبارہ ہجرت کی اجازت طلب کی، حضور پرنور نے فرمایا:
"ہجرت میں جلد بازی نہ کرو ، امید ہے مجھے بھی خدائے پاک ہجرت کا حکم دیں گے،"
چار ماہ انتظار کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، حضرت ابوبکر صدیق کی ہمراہی میں آپ علیہ السلام نے ہجرت فرمائی قران نے اس ہجرت کا خوب نقشہ کھینچا ہے، دشمنوں سے کس طرح آپ کی حفاظت فرمائی یہ ایک تفصیلی مضمون ہے،
تاریخ میں اس واقعہ کو" ہجرت مدینہ " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے .
مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کی بے بسی اور مظلومیت کا دور ختم ہوچکا تھا، اور آزادی کے ساتھ دین متین کی نشرو اشاعت کا وقت آن پہنچا تھا،
لیکن مدینہ میں اسلام کی اشاعت کی وجہ سے کفار نے مسلمانوں کو میدان منبر وعظ سے ہٹا کر جنگ کی طرف مجبور کیا، ان تمام جنگوں میں آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہے.
حضور اکرم کی وفات کے بعد آپ مسند آرائے خلافت ہوئے،
آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد مشکلات ومصائب کے منہ کھل گئے،فتنے پنپنے لگے، مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے ، مرتد اور زکوٰة کے منکرین نے الگ شور برپا کیا ہوا تھا،
آپ نے اپنی فہم وفراست سے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا، مرتدین اور منکرین زکاة کی سرکوبی کی اور اسلام کو تمام خطرات سے محفوظ کر دیا.
جنگوں میں حفاظ قران کی شھادت کی وجہ سے آپ جمع قران کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت زید بن ثابت کو جمع قران کا پابند کیا،
آپ کا عہد خلافت نہایت مختصر رہا ۔اس میں آپ نے نظام خلافت اور ملکی نظم ونسق پر توجہ دی ، حکام کی نگرانی سخت کی،تعزیر وحدود اور مالی انتظامات کے لیے باقاعدہ شعبہ قائم کیا، اس کے علاوہ فوجی نظام، فوج کی تربیت، سامان جنگ کی فراہمی، فوجی چھاونیون کا معاینہ، بدعات کا سد باب، خدمت حدیث، محکمہ افتاء،اہل بیت اور متعلقین رسول کا خیال، اور ذمی رعایا کے حقوق آپ کے عہد خلافت کے زرین کارنامے ہیں.
آپ کے عہد میں فتوحات کی ابتدا ہوئی تھی کہ آپ منگل کے روز تیرہ ہجری میں تریسٹھ سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے.
آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور رازدان تھے، تمام امور میں آپ صدیق رضہ سے مشورہ کیا کرتے تھے، آپ کے فضائل بے شمار ہیں،
وفات سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ابوبکر اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سےمیرا سب سے بڑا محسن ہے ، اگر میں خدا کے سوا کسی کو دوست بناسکتا تو ابوبکر کو بناتا، لیکن اسلامی اخوت ومحبت افضل ہے. "
(بخاری کتاب المناقب )
مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر رضہ کے دروازے کے علاوہ سب کے دروازے بند کر دیے گئے تھے، حضرت عمروبن العاص بے آپ علیہ السلام سے پوچھا آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ابوبکر.
(حوالہ بالا )
آپ علم وکمال کے مجموعہ تھے،
آپ کے اخلاق، زہد وتقوی، رحم دلی،ریاست بازی، دیانت داری تواضع، سخاوت، خدمت خلق نیز پوری زندگی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے.
آپ کی شخصیت ہمارے لیے ایک" آئیڈیل "ہے.
رضہ اللہ عنہ .

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply