تحمل،برداشت۔۔بہترین سچ!

انسان کو اپنے اعلی کردار و مخصوص صفات کے سبب کچھ ایسے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جو کہ صرف زندگی میں ایک ہی بار انجام دے دیئے جاسکتے ہیں پر یاد وہ پوپلے منہ ہونے تک بھی رہتے ہیں۔۔ ہم بہت ہی شریف طبع واقع ہوئے تھے کبھی کسی کو دلی آزار پہچانے کا سوچا نہیں۔ سوچنا آپ سمجھ گئے ہونگے، ہوجانا ایک الگ تمیثل ہے۔ ہم10سال کی مظلوم ترین عمر پر مشتمل ہیں ہمیں کرکٹ پسند ہے اور ہماری گیند کو شیشیوں سے حد درجے کا عشق۔۔۔ اس لیئے جب بھی کھیلتے ہیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں چھپی ہوتی ہیں، غور نہ بھی کریں تب بھی واضح معلوم پڑتی ہیں اس لیئے پاکستانی گھرانے کی طرف سے مصباح علی کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا بری کارکردگی کےباعث۔میرے حضرت میرے اعمال مقدسہ پر لال ہوجاتے ہیں شرم والے نہیں غصے والے اور ہمارا ہتھیار ہتھیا لے جا اس الماری میں ٹھونستے ہیں جس میں وہ خود بھی کھو جائیں تو واپس نہ مل پائیں۔
اچھا تو وہ سوچکے ہیں اس باطل خیال کے سہارے کہ ہم جبراً استراحت فرما رہے ہیں، بندہ ان سے پوچھےکہ آج تک کوئی بچہ دوپہر میں جبراً بھی سویا ہے کبھی؟ جب کائنات کا ہر نظارہ پکار پکار کر بولے کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ، مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔۔پورا گھر سنسان ہے اور ہم بال کے پیچھے پریشان ہیں۔ غور کرنے پرآلو بہت سخت اور ٹماٹر انتہائی نازک مخلوق معلوم پڑی۔۔ نیز لان صاف کرنے والی ماسی بھی “مذاخ مذاخ ” میں ہی جاسوئی تھیں، اس لیئے ساتھ والے انکل کی طرف سےنومولود اور شیر خوار مالٹے پوری ٹوکری بھر کے لائے اور گھر آکر ایک ایک شاٹ کی صورت واپس لوٹائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھلے قرضہ نہیں اتارتا نہ اتارا کرے کم از کم ہم تو اس کارِ بد میں حصہ دار نہ بنیں گے کی شرط پر یہ سلسلہ کمالات جاری تھا کہ ایک دم ساتھ والے انکل کی چیخ فضا میں بلند ہوئی، ہم درون سینہ حساس دل رکھنے والے جیسے ہی سیڑھی پر کودتے کودتے بلندی سے پستی کی طرف ان کے گھر کا جائزہ فرماتے ہیں ایک شخص جس کے سر کے تمام ساتھی بھلے وقتوں میں ہی خالق حقیقی کو جاملے ہوں گے تاب نہ لائےجانے والی فرعون نظروں سے ہمارا ہی دیدار فرمارہے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ ہمارا پیش کیا جانے والا نظرانہ نوش فرمایا جاچکا ہے اور وہ سوتی کیوں نہیں ہو؟ جیسی بلند قامت آواز میں چنگاڑ کر ارشاد نازل کرتے ہیں اور ہمارے سارے ہی اوسان اﷲمیاں کو ایکدم پیارے ہوجاتے ہیں اور ہم زمین پر جا سجدہ دیتے ہیں۔ اس تشریف آوری کے نتیجے میں بلند ہونے والی ہماری خوش الحانی کا ہمارے آباؤ اجداد کی اس اشرف المخلوق کے دربار پر حاضری یقینی بنا دیتی ہے اور اس سوتے چھوڑے مگر جاگتے معجزے کو سلامی پیش کرنے کا انداز بتاتا ہے کہ آج تو بس رہے گا نام صرف خدا کا کیونکہ دوسری طرف سے ٹنڈ انکل کی مسلسل سفارشات جاری ہیں کہ اس کو کمرے کے باہر سے بند کیا کرو کہ سو مرجایا کرے روز نیند اس نے حرام کی ہوئی میرےگھر روز توپ کے گولے سوتے ہی پھیکنا شروع کردیتی ہے۔۔۔ چلو جی اندر۔۔ ابھی بچی ہے جانے بھی دیا کریں۔۔ آنٹی کہتیں اور وہ ہم کو کھا جا نے والی نظروں سے دیکھ کر غروب ہو جایا کرتے اور ہم ان کی ٹنڈ پہ ابھرتے عجیب الخلقت مہراب کو کمرے میں لے جا کے بند کیے جانے تک بغور ملاحظہ فرمایا کیے۔ اگلے دن مسئلہ یہ تھا کہ آج کس چیز کا نذرانہ پیش کیا جائے سلامی کے طور پر ؟
مسئلےکاحل ہمیشہ مہراب میاں کی طرف سے ملتا تھا ہمیشہ گیٹ ہماری تشریف آوری کیلئے واء ملتا، بال ملتی تو وکٹ کی کمی مٹکا رکھ کر پوری کی جاتی طبیعت باغ باغ تب ہوتی جب کاک کی بال لگنے سے مٹکا سرکار جی غصہ سے پھٹ کر اعلان مذمت کرتے اور انکل جی کے کان میں جا شہنائیاں بجتی کہ مسمی کی تشریف آوری ہوگئی ہے۔ باہر تشریف لے آتے اس سے پہلے کہ بہتر تحفے کی وصولی ناگزیر ہوجائے۔ ارشاد عرض کرتے پتر جی اج دل کھول کہ کھیڈ لے سارا اور ہمیں اگلے دن کی فکر ستاتی کہ اتنے دنوں کا آج ہی کیسے کھیل لیں۔ یوں ہر نئے دن کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد کا نام نت نئے طریقےسے روشن کرنے کا یہ سلسلہ چلتا رہا، عجیب لوگ تھے۔ اتنی برداشت تھی ان میں ۔اب تک یاد کیے جاتے ہیں دنیا کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگئے۔ پر دل و دماغ میں اب بھی ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں۔ اپنے اسی پیار اسی برداشت کے سبب آج بھی دعاؤں میں اپنا حصہ سنبھالے موجود ہیں۔ میلوں دور سے جب کوئی کسی کی یادیں سنبھالے اپنے رب سےاپنی امان کیساتھ کسی اور کے لیئے بھی امان مانگ رہا ہوتا ہے۔ جب اس شخص میں رب کی رضا مانگنے کی اصل بھی کہیں کھوسی گئی ہوتی ہے ۔ دنیا کے کسی کونے سے کوئی ہاتھ اٹھائے آپکی تندرستی اورسکون و آسانی مانگ رہا ہوتا ہے دعائیں بلند کرتا ہے، آپکے بہت مشکل وقت میں انکی دعائیں آپکو گھیرے میں لئے رکھتی ہیں۔
جہاں بھی جس نے جس کسی کیساتھ اچھا وقت گزارا ہے وہ شخص یاد رکھا جاتا ہے۔خوش رہیں۔۔ تمام انسانوں کے لیے باعثِ سکون رہیں۔ کبھی دلیل رکھتے بھی ہوں کسی موقف پرجہاں دل دکھنے کا ڈر ہو وہاں دلیل چھپا لیں احسن اور بہترین سچ کی روایت ڈالیں۔ قوم کی قسمت میں امت کا وجود پنپنا شروع ہوجائے گا۔دلوں میں خدا بستا ہے خالق کائنات کے اثر سے دل جسم کا سب سے طاقتور اور سب سے حساس عضو بھی ہے اس پر بن آئے تو کچھ نہیں دیکھتا فلاسفر ہوکے بھی پوری دنیا فتح کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔اس دل سے سلوک سوچ سمجھ کر کریں اس سے فقط انسان کو ہی نہیں خدا کو بھی فرق پڑتا ہے۔ اللہ آپ کو اپنی دی گئی تمام صلاحیتوں کا بے پناہ استعمال کرنے کی توفیق دے اوراپنی دی گئی جان کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔

Facebook Comments

شام علی
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply