مفتی محمود رح کی زندگی پر ایک نظر

مملکت خداداد وطن عزیز پاکستان کے حصول کا مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہو سکیں، جس کے لیے ضروری تھا کہ مملکت کا قانون، مملکت کا آئین اور مملکت کا نظام حکمرانی اسلامی ہو۔ بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا، کیونکہ آزادی پاکستان کے بعد زمام اقتدار جس طبقے کے ہاتھ آئی اسے اسلام سے نہیں بلکہ ذاتی مفادات سے لگاو تھا۔انہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ تحریک آزادی پاکستان کے لیے بے مثال جدوجہد کرنے والے کبار علماء کرام بھی مایوسی کا شکار ہونے لگے تھے لیکن وطن کی محبت نے ان آشفتہ سروں کو چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ تاآنکہ ملک کے سرکردہ علماء کرام نے مل بیٹھ کر جمعیت علماء اسلام’ جس کی بنیاد 1945 میں رکھی گئی تھی‘ کے احیاء کا فیصلہ کیاتاکہ تحریک آزادی پاکستان کے حقیقی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔یہی وہ موقع تھا جب ملکی سیاست اور نظام اسلامی کے نفاذ کی کوششوں کو مفتی محمود رحمہ اللہ کا وجود مسعود میسر آیا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کا احیاء اگرچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے رہین منت تھا کیونکہ وہی اس جماعت کے بانی موسسین میں سے بھی تھے مگر ان کی رحلت کے بعد تنظیم کے اصل روح رواں مفتی محمود ہی بنے۔ قدرت نے آپ کو قیادت، معاملہ فہمی،سیاسی بصیرت اور دینی علوم میں ملکہ تامہ ودیعت کر رکھا تھا۔بے پناہ سیاسی مصروفیات کے باوجود فقہی مسائل اور ان کے دلائل کاایسا استحضار تھا کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے۔
اس بارے میں مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب بیان کرتے ہیں
1979میں میں اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر تھا…. ان دنوں مفتی محمود، راولپنڈی کے C.M.H میں زیر علاج تھے۔ میں حدود و زکوۃ کے مسائل کے سلسلے میں حضرت مفتی صاحب سے مشورہ کرنے آپ کے پاس جایا کرتا تھا اورہر ہر موقع پر آپ کی علمی گہرائی وگیرائی کا نہ صرف یہ کہ اندازہ ہوتا تھا بلکہ حیرانی بھی، کہ اتنی مصروفیات کے باوجود آپ علمی پیچیدگیوں کو بخوبی جانتے ہیں اور مطالعہ بھی بدستور جاری ہے۔ (مولانا مفتی تقی عثمانی ، ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور مفتی محمود نمبر)
حضرت مفتی محمود رحمہ اللہ کی علمی، دینی اور سیاسی خدمات کا مکمل احاطہ کرنا پیش نظرہو تو پوری کتاب تیار ہو سکتی ہے مگر ہم یہاں ان کے صرف اس سیاسی کردار سے بحث کرنا چاہتے ہیں جس کا تعلق صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پی کے) سے ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان آپ کا حلقہ انتخاب تھا۔ 1962 میں جب مفتی صاحب نے پہلی بار قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تو ڈیرہ اسماعیل خان کی واحد قومی نشست پر آپ کے مدمقابل پانچ امیدوار تھے جن میں سے ایک کے سوا سب اپنی ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے۔ اقتدار کے ایوانوں میں آپ کی آواز اسلامی نظام کے نفاذ، جمہوریت کی بقاء اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے ہمعصروں کی بنسبت ہمیشہ بلند وپرزور رہی، اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں اور بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے ان کی جدوجہد بے مثال ہے۔ بنجر زمینوں کی آبادکاری ہو یا اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کا قیام، علاقے کے غریب عوام اور دوردراز بسنے والوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کٹھن مرحلہ ہو یا ڈیرہ اسماعیل خان کو پنجاب سے ملانے کے لیے دریاخان پر پل کی تعمیر، ہر موقع پر حضرت مفتی صاحب عوام کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔چونکہ مفتی صاحب کا طرز حکمرانی اور انداز سیاست عوامی تھا اس لیے ان کے دور میں وزیر اعلی ہاوس کے دروازے عوام کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے، عصر سے لے کر رات دیر تک کا وقت ملاقاتیوں کے لیے وقف تھا، اس دوران عام لوگوں کے ہجوم میں گھرے رہتے تھے۔ان کے مسائل سنتے، اور حل کے لیے احکامات صادر کرتے رہتے تھے۔ اگرچہ آپ وزارت عظمی کے عہدے پر صرف نو ماہ کے انتہائی قلیل عرصے کے لیے فائز رہے لیکن اس دوران جو امور مہمہ سر انجام دیے ان کی تفصیلات دیکھ کر عقل دنگ ہو جاتی ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے وزارت کا حلف اٹھانے کے چند روز بعد ایک خود مختار ترقیاتی ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا،جس کا مقصد ترقیاتی منصوبوں اور سکیموں کی رپورٹ بنانا اور دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان کی تکمیل کے لیے گزارشات پیش کرنا تھا۔ آج پینتالیس سال گزرنے کے بعد خیبر پختونخواہ کے عوام کی وہی پسماندگی اور صوبہ کی ناگفتہ بہ حالت کو سامنے رکھ کر ایک نظر اگر اس خود مختار ادارے کے بنائے گئے منصوبوں اور سکیموں پر ڈالی جائے تو بے ساختہ یہ خواہش دل میں امڈ آتی ہے کہ کاش مفتی صاحب کچھ عرصہ مزیدیہاں کے وزیر اعلی رہتے تو آج خیبر پی کے کا نقشہ ہی الگ ہوتا۔
ڈاکٹراحمدحسین کمال اپنی کتاب ’عہد ساز قیادت‘ میں لکھتے ہیں
صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے خود مختار ترقیاتی ادارے نے جو حال ہی میں قائم کیا گیا ہے اپنا کام شروع کر دیا ہے،یہ ادارہ عوام کی بنیادی ضروریات کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ صنعتی اور زرعی ترقیاتی سکیمیں بھی شروع کرے گا، اس ترقیاتی ادارے نے خزانہ شوگر ملز کے لیے زمین حاصل کر لی ہے، یہ کارخانہ بیلجیئم کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے، اس منصوبے پر سات کروڑ روپیہ خرچ کرنے کا تخمینہ تھا۔سیمنٹ کارخانہ کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ یہ کوہاٹ میں قائم ہوگا۔اس منصوبہ پر آٹھ کروڑ روپیہ سے زیادہ لاگت کا اندازہ تھا۔ سوتی کپڑے کے کارخانے کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ ایک سوات میں اور ایک دیر میں قائم ہو گا۔اور ہر کارخانہ پر لاگت کا تخمینہ چار چار کروڑ روپے کا تھا۔جو دو سال میں مکمل ہونے والے تھے۔ کیمیاوی کھاد کے کارخانہ کے قیام کے لیے چار پانچ سال کی مدت رکھی گئی جس پر آٹھ کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ اس کو موزوں مقام پر قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ ورسک سٹیل پلانٹ کے نام سے فولاد کا کارخانہ کا منصوبہ زیر تجویز تھا۔ اس پر سترہ کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھاپ سے پیدا ہونے والی بجلی کے سٹیشن کے قیام کا منصوبہ بھی زیر غور تھا۔اور ان تمام منصوبوں پر اخراجات میں زرمبادلہ بھی شامل تھا۔ کاغان، سوات، چترال ، دیر اور کوہستان کے علاقے پن بجلی پیدا کرنے کے لیے موزوں مقامات ہیں اور وہاں اس کے پیدا کرنے کے وسائل بھی ہیں۔صوبہ سرحد کے ترقیاتی ادارے کا وہاں چھوٹے چھوٹے پاور ہاوس قائم کرنے کا پروگرام تھا، جس سے ایک ہزار پانچ سو دیہاتوں تک بجلی پہنچانے کا انتظام ہو سکتا تھا۔ایسے ہی کان کنی کے شعبے کو فعال بنانے کے لیے ضروری اقدامات کا فیصلہ ہوا۔اسی طرح آبنوشی اور آبپاشی کے منصوبے بھی اس ترقیاتی ادارے کے زیر غور تھے۔آبنوشی کی سکیموں کے لیے حکومت نے دو سال کا عرصہ مقرر کیا۔جبکہ چشمہ رائٹ بینک کینال کا منصوبہ بھی زیر غور تھا( یہ منصوبہ سالوں بعد حضرت مفتی صاحب ہی کی کوششوں سے منظور ہوا اور آج ہزاروں ایکڑ زمین کو سیراب کر رہا ہے) شروع میں تربیلہ ڈیم سے صوبہ سرحد کے لیے آبپاشی کاکوئی پروگرام نہیں تھا، مفتی صاحب کی حکومت نے وہاں سے پیہور کینال منظور کروائی۔جس کے لیے وہاں سے ٹنل کا انتظام کیا گیا جس کا نام ’مفتی ٹنل‘ رکھا گیاجو اب بھی موجود ہے۔کوٹ ادو سے ڈیرہ اسماعیل خان کو بجلی پہنچانے کا بندوبست اور اس کے علاوہ زراعت اور دیہی ترقی کے بے شمار منصوبے بنائے گئے۔
ہفت روزہ پیمان کو ایک انٹرویو کے دوران مفتی صاحب نے فرمایا: ون یونٹ کے زمانے میں پنجاب میں ایک سے ایک عالیشان عمارت بنائی گئی، کارخانے لگائے گئے، کئی اہم پل تعمیر کیے گئے،بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے لائنیں بچھائی گئیں۔ اسی طرح ہمارے صوبہ میں بھی یہ سب کچھ ہو سکتا تھالیکن جان بوجھ کر اس صوبہ کو نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ صوبہ پسماندہ رہ گیا، اب ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ون یونٹ کے دوران ان تمام صوبوں میں جتنی تعمیرات ہوئی ہیں ان کا سروے کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہر صوبہ میں تعمیرات پر کتنی رقم خرچ ہوئی ہے، اس سروے کے بعد پتہ چل جائے گا کہ صوبہ سرحد میں بہت کم رقم خرچ کی گئی ہے، چونکہ ون یونٹ کے دوران یہ رقم مشترک تھی اس لیے سروے کے بعد صوبہ سرحد کے حصے میں تعمیرات کی جو رقم آتی ہے وہ صوبہ کو دی جائے جو کروڑوں روپے تک پہنچتی ہے۔آپ نے کہا کہ صوبہ سرحد میں تعمیرات کا یہ حال ہے کہ اس وقت وزیروں اور مشیروں کے بیٹھنے کے لیے کمرے تک نہیں مل رہے ہیں،صرف ایک گورنر ہاوس کی عمارت باقی بچی ہے وہ بھی پی آئی اے والے ہوٹل بنانے کے لیے کرایہ پر لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ( ہفت روزہ ’پیمان‘ کراچی1972)
مفتی محمود رحمہ اللہ کی صوبائی حکومت اگر اپنی مدت پوری کر لیتی تو آج خیبر پختونخواہ ملک کا ترقی یافتہ ترین صوبہ ہوتا مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا،چنانچہ اصولوں پر سودا نہ کرنے والے ،اپنے وقت کے عظیم سیاستدان مفتی محمود صاحب صرف نو ماہ بعد کابینہ سمیت حکومت سے احتجاجا مستعفی ہو گئے کیونکہ مرکزی حکومت نے بلوچستان میں قائم نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کی اتحادی حکومت گرا دی تھی۔
حضرت مفتی صاحب سادہ مزاج اور بندہ پرور قسم کے انسان تھے، ان کی شخصیت کو فقہی معاملات میں کمال دسترس، اسلامی نظام کے نفاذ کی انتھک جدوجہد، جمہوری روایات کی پاسداری، ملکی و غیر ملکی معاملات میں بے مثال بصیرت اور وطن عزیز پاکستان کی محبت نے یکجا ہو کر چار چاند لگا دیے تھے،وفاق المدارس العربیہ کے قیام و تنظیم میں کلیدی کردار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کا قیام مفتی صاحب کی علم دوستی کے زندہ و جاوید نشاں ہیں۔آپ سیاسی جماعتوں اور مذہبی و مسلکی دھڑوں کے آپسی اختلافات ختم کرنے اور اتحاد و اتفاق کی فضا بنانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔مرتے دم تک علم دین کی خدمت اور علماء کرام کی سیاسی بیداری کے لیے کوشاں رہے، ان کا سفر آخرت بھی قابل رشک تھا کہ حج بیت اللہ کی نیت باندھے سفر میں تھے کہ خالق کائنات کا بلاوا آگیا، اور ساری عمر دین محمدی کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والا یہ آفتاب شریعت محمدی کا ایک فقہی مسئلہ بیان کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply