آنکھیں بند کرلیجئے۔۔گل نوخیز اختر

آٹھویں کے امتحان ہیں۔میرا کل انگریزی بی کا پرچہ ہے۔ ماں نے حکم دیا ہے کہ سارا دن پڑھو۔ اس لیے صبح سے مسلسل tenses یاد کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ماموں کا لڑکا عمران سیریز کا تازہ ناول’خاور لائبریری‘ سے کرائے پر لے کر آیا ہے اس لیے سارا دھیان اُس طرف ہے کہ کب وہ ناول ختم کرے اور کب میں شروع کروں۔گلی سے آواز بلند ہوتی ہے’کریم کی خالی شیشیاں بھروا لو‘۔ ماں جی آواز لگاتی ہیں ’اسے روکو‘۔ میں بھاگ کر سائیکل والے کو روکتا ہوں جس نے سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا ڈبا رکھا ہوا ہے جس میں مختلف اقسام کے کھلے پاؤڈر، کریم، دنداسے اور ہوائی چپل کی ’ودریاں‘ رکھی ہوئی ہیں۔ ماں جی خالی شیشی لے کر دروازے پر آتی ہیں اور سائیکل والے کی طرف بڑھاتی ہیں۔وہ ایک بڑے سے ڈبے سے چہرے پر لگانے والی کریم نکال کر شیشی بھری دیتا ہے اور بارہ آنے میں یہ شیشی دوبارہ قابل استعمال ہوجاتی ہے۔ابھی میں گلی میں ہی کھڑا ہوں کہ میرا دوست مظہر زیدی تیزی سے سائیکل چلا تا ہوا میرے قریب آتا ہے اور سرگوشی کرتاہے”فضل قادر کے پاس بڑا شاندار گیس پیپر آیا ہے“۔میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور میں وہیں سے اس کے ساتھ سائیکل کے کیرئر پر بیٹھ کر فضل قادر کی طرف جا دھمکتا ہوں۔ فضل قادر اس وقت فرعون بنا ہوا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا گیس پیپر کسی اور کو پتا چلے۔ تاہم ہم دونوں کی منت سماجت کے بعد وہ اس شرط پر گیس پیپر دینے کے لیے آمادہ ہوجاتاہے کہ آگے کسی کو پتا نہ چلے۔ ہم دونوں گیس پیپر لے کر واپس آتے ہیں۔گھر کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ماموں کا بیٹا نظر آتاہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عمران سیریز کا نیا ناول ختم کرچکا ہے۔ دل خوشی سے بھر جاتاہے۔ میں تیزی سے ماموں کے گھر میں داخل ہوتاہوں۔سامنے والے کمرے کی دائیں جانب دو تین لوہے کی پیٹیاں پڑی ہیں، الٹے ہاتھ مسہری ہے اور برآمدے میں نانی اماں حقہ پی رہی ہیں۔ میں کمرے کے چاروں طرف جائزہ لیتا ہوں اور دیوار کی ’پڑچھتی‘ پر ناول پڑا نظر آجاتاہے۔میں چھلانگ لگا کر ناول اٹھاتا ہوں کہ نانی اماں کی آواز آتی ہے’کون ہے؟‘۔ نانی دیکھ نہیں سکتیں، اٹھ نہیں سکتیں لیکن ان کی حسیات بہت تیز ہیں۔’میں ہوں نانی‘ میں بلند آواز بتاتا ہوں اور ناول لیے باہر کی طرف بڑھتاہوں۔ نانی کی چیختی ہوئی آواز آتی ہے’وے مجھے نمازیوں سے پانی تو دم کروا کے دے جا‘۔ میں نانی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے نکل جاتاہوں۔ ہمارا گھر نانی کے گھر سے جڑا ہوا ہے۔ اندر سے ایک کھڑکی ہے جو دونوں گھروں میں کھلتی ہے۔ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے والی ملکانی پر نظر پڑتی ہے۔ملکانی ہماری ہمسائی ہے۔ ماں جی اس کے لیے لال شربت بنا رہی ہیں۔ یہ شربت اصل میں چینی کا ہے، پہلے سادہ پانی میں چینی گھولی جاتی ہے اور پھر دو چار قطرے لال شربت کے ڈال دیے جاتے ہیں، ابھی پانی میں صرف شربت ڈالنے کا رواج نہیں آیا۔میں تیزی سے ناول نیفے میں چھپاتا ہوں اور ملکانی کو سلام کرتے ہوئے اوپر چھت کی سیڑھیاں پھلانگ جاتاہوں۔بڑی بہن برآمدے میں پوچا لگا رہی ہے اور اس سے چھوٹی، ٹیویشن کے لیے آنے والے بچوں میں گھری ہوئی ہے۔ابا جی کے آنے کا بھی وقت ہورہا ہے۔میں جلدی سے چھت پر جاکر ناول کھولتا ہوں۔بمشکل چار صفحے ہی پڑھ پاتا ہوں کہ سائیکل کی گھنٹی کی آواز آتی ہے۔ ابا جی آگئے ہیں۔ میں جلدی سے ناول وہیں ایک کونے میں پڑے بکسے میں چھپا کر تیزی سے نیچے آجاتاہوں۔ ابا جی کے سائیکل کے ساتھ ایک بڑا سا تھیلا لٹک رہا ہے۔ وہ کبھی خالی ہاتھ گھر نہیں آتے۔ اب کی بار وہ آم لائے ہیں۔موسم کے پہلے آم ہیں لہذا مجھے پتا ہے یہ ماں جی کھائیں گی نہ ابا جی بلکہ سب سے پہلے انہیں دھویا جائے گا، پھر بالٹی میں برف ڈال کر آم اس میں ڈالے جائیں گے اور گھر کا سب سے چھوٹا بچہ ہونے کے ناطے پہلا آم مجھے دیا جائے گا، پھر باقی بہن بھائی کھائیں گے۔ چوسے ہوئے آم شائد ہم بہن بھائی ٹھیک سے نہیں کھاتے تھے اس لیے ا با جی اور ماں جی ہمارے چوسے ہوئے آموں کو دوبارہ سے کاٹ کر مزید گودا نکالتے ہیں اور یہی کھاتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں وہ نئے آم کو ہاتھ لگانے سے کیوں کتراتے ہیں۔رات ہوچکی ہے۔ پی ٹی وی سے آخری پروگرام فرمان الٰہی نشر ہوچکا ہے اور اب صرف لہریں آرہی ہیں۔ چھت پر چارپائیاں بچھا دی گئی ہیں۔ کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا پنکھا گھوم گھوم کر گھر کے نو افراد کو ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے لیکن اے سی کا مزا آرہا ہے۔تاروں بھرا آسمان ہے۔ساتھ والے ہمسائیوں کی چھت سے لڑکیوں کے گانے کی آواز آرہی ہے۔فضا میں ایک پرسکون سکوت طاری ہے۔ابا جی دھوتی بنیان پہنے لیٹے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کسی ولی کا قصہ سنا رہے ہیں۔گلی میں لیٹے ہوئے بزرگوں کی گفتگو کی ہلکی ہلکی آواز آرہی ہے جو رات بیتنے کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتی جارہی ہے۔میرا دھیان ناول کی طرف ہے لیکن دل میں کل کے پرچے کا خوف بھی ہے۔اسی خوف اور دعا کے عالم میں آنکھ لگ جاتی ہے۔ ہوا اتنی ملائم ہے کہ یوں لگتا ہے لوریاں دے رہی ہے۔ پھر تہجد کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ گلی سے گذرتے ہوئے بابے نور دین کی درود شریف پڑھنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ابھی صبح ہونے میں کچھ وقت ہے۔ نیند نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔کچھ ہی دیر میں مساجد سے اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور ابا جی کی خمار آلود آواز کانوں میں پڑتی ہے’اٹھ جاؤ بھئی نماز کا وقت ہوگیا ہے‘۔ ابا جی روز یہی کہتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں سورج نمودار ہونا شروع ہوجاتاہے۔چڑیوں کی آواز اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ مزید سونے نہیں دے رہی لہذا سب اپنا اپنا بستر اٹھا کر غنودگی کے عالم میں نیچے جاکر پھر سوجاتے ہیں ……آنکھیں کھول لیجئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply