نورین لغاری اور داعش

نورین لغاری اور داعش
نعیم الدین جمالی
دس فروری سے لاپتہ ہونے والی لمس یونیورسٹی کی ایم بی بی ایس سال دوم کی طالبہ نورین لغاری کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا،نورین لغاری سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالجبار لغاری کی بیٹی اور حیدرآباد سندھ کی رہائش ہیں.
لاپتہ ہونے کے لگ بھگ ایک مہینہ پانچ دن بعد کل ایک اسوہِ جتوئی نامی آئی ڈی سے اپنے بھائی کو نورین کی طرف سے ایک میسج کیا کہ”میں ہجرت کر کے سرزمین خلافت پہنچ چکی ہوں، انشاءاللہ آپ بھی ایک دن ہجرت کر کے یہاں پہنچ جائیں گے.”یاد رہے کہ نورین دس فروری کو صبح یونیورسٹی کے لیے نکلی تھی اور لاپتہ ہوگئی، والدین نے کیس کو دوسری نگاہ سے سوچتے ایک مہینے تک اس کو مخفی رکھا، اپنی حد تک انہوں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن نورین کا کوئی پتہ معلوم نہ ہوسکا۔
دو روز قبل والدین نے پولیس کو رپورٹ درج کروائی ہے، پولیس نے ابتدائی تفشیش میں یہ انکشاف کیا ہے کہ دس فروری کو ڈائیوو بس کے لیے نورین کے نام سے ٹکٹ خریدا گیا تھا اوربس کے ذریعے اس کے لاہور جانے کی بھی اطلاعات ہیں اور پولیس کا موقف ہے کہ نورین کی آئی ڈی سے دہشت گردی کے متعلق مودا بھی شائع ہوتا رہا ہے ۔لیکن کل سے نورین کے میسج کے بعد یہ کیس دوبارہ میڈیا پر زیر بحث ہے۔مختلف قسم کی قیاس آرائیاں اور تجزئیے پیش کیے جارہے ہیں۔
حقیقت کیا ہے؟ایک لڑکی کس طرح داعش کے لیے گھر سے اکیلی ہجرت کر سکتی ہے؟اور پھر میسج کر کے مطلع بھی کر رہی ہے کہ میں خلافت کی سرزمیں پر خیریت سے پہنچ چکی ہوں۔
داعش کیا ہے؟اس کا وجود، ، سفاکیت وبے رحمی کسی چشم بینا سے پوشیدہ نہیں؟ نورین کے اس میسج اور داعش میں شمولت نے کیس کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنادیا ہے۔
والدین نے اس بات کی شدید تردید کی ہے ان کی بیٹی داعش میں کبھی بھی شمولیت اختیار نہیں کر سکتی، وہ کاکروچ اور چپکلی سے ڈرتی تھی وہ داعش جیسی خونخوار پارٹی میں کیسے شمولیت اختیا کر سکتی ہے۔اس واقعہ پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،حکومت اس آئی ڈی اور نورین کے رابطوں کی تفتیش کرے تو کیس میں کامیابی مل سکتی ہے، لیکن والدین کی ایک مہینے کی خاموشی نے اس کیس کو مزید کمزور کردیا ہے، لیکن خدانخواستہ اگر یہ کیس حقیقت ثابت ہوتا ہے، تو ملک وقوم کے لیے لمحہ فکریہ ہوگا۔قومی سلامتی کے اداروں کی کارگردگی پر ایک سوالیہ نشان ہوگا،
“پاکستان میں داعش کا وجود نہیں،داعش کو پاکستان میں قدم رکھنے نہیں دینگے، داعش یہاں اپنا سکہ نہیں جما سکتی “جیسے سب دعوے دھرے کے دھرے ثابت ہوں گے.
اور یہ کیس مزید اہمیت طلب ہوگا کہ داعش اپنا نیٹ ورک اتنا مضبوط کرچکی ہے کہ اب تعلیمی اداروں میں اپنے نظریات کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرچکی ہے، اور لوگ اب اس کے نظریات کو قبول کر کے ان کی جماعت میں بھرتی بھی ہورہے ہیں.
ایک لڑکی کو داعش کے لیے تیار کرنے میں کتنے لوگ ملوث ہوں گے؟اور اس کا لاہور جانا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ داعش کے سہولت کار پورے ملک میں موجود ہیں۔
حکومت کو داعش کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، ان کے عزائم کو فی الفور ناکام بنانا ہوگا، یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں جہاں کہیں ان کے سہولت کاروِں کے موجود ہونے کا انکشاف ہو ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ایسا نہ ہو کہ وطن عزیز کے پر امن لوگ بھی ان کی سفاکیت اور بے رحمی کا شکار ہوجائیں، پورے ملک میں کشت وخون کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے؟

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply