ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں ۔۔حفیظ نعمانی

اب یا پہلے کبھی بابری مسجد کے مسئلہ پر ہم نے لکھا تو بورڈ کی مخالفت کا تو تصور بھی نہیں تھا۔ بعض حضرات نے وہ نہ سمجھا جو لکھتے وقت ہمارے ذہن میں تھا۔ اب صورت حال میں مولانا سلمان حسینی ندوی کو بورڈ سے نکالنے کے بعد تلخی بڑھ جائے گی۔ مولانا سلمان جو امام حنبلؒ کے مسلک کا حوالہ دے رہے ہیں اس کا مقصد تو یہ ہے کہ حکومت کا کوئی اہم تعمیری منصوبہ ہو اور مسجد اس میں رکاوٹ بن رہی ہو یا مسجد ایسی جگہ پر ہو کہ سیلاب میں اس کے ڈوبنے یا زلزلہ میں اس کے شہید ہونے کا خطرہ ہو تو اسے کہیں اور منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اجودھیا میں ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ شاید ایسی کوئی نظیر نہ ملے کہ اس پر کافروں کا قبضہ ہوگیا ہو اور وہ قبضہ حکومت نے کرایا ہو اور دور دور تک مسلمان آباد نہ ہوں اور کسی مسلمان کو مسجد کی طرف جانے کی قانونی طور پر اجازت بھی نہ ہو تو اس کی کیا حیثیت ہوگی اور امام حنبلؒ اس کے لئے کیا فرماتے ہیں؟
بورڈ کا موقف وہی ہے کہ بابری مسجد تھی مسجد ہے اور مسجد رہے گی مسجد کو شہید کرنے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہوتی شرعی طور پر مسجد کی آراضی کو نہ فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی فرد یا جماعت کو تحفہ میں دیا جاسکتا ہے۔ بورڈ کے ذمہ داروں کے سامنے بھی صورت حال پوری طرح ہے کہ 70 برس پہلے وہاں اذان ہوئی اور نماز پڑھی گئی تھی اس کے بعد 40 سال اس میں سرکاری تالا پڑا رہا اور مسجد حکومت کے قبضہ میں رہی 30 سال پہلے مسجد کا تالا کھلا اور مسلمانوں کو داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ملی اور ہندو پوری طرح پوجا پاٹ کرتے رہے 1992 ء کے دسمبر کی 06 تاریخ کو وہ شہید کردی گئی جس میں حکومت شریک تھی اور اس کے بعد سے وہاں رفتہ رفتہ مندر بنا جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ ملائم سنگھ نے بھی اپنی حکومت میں سپریم کورٹ میں بلٹ پروف دیواریں بنانے کی اجازت مانگی تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب صورت حال یہ نہیں ہے کہ زمین کا ایک ٹکڑا جس پر مسجد کی عمارت تھی وہ عمار ت مسجد کی مسماری کے بعد اب ویران پڑی ہے۔ اور فیصلہ یہ ہونا ہے کہ مسلمان اسے مندر بنانے کے لئے دیں یا اپنی مسجد بنائیں؟ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ 70 برس سے ہر ہندو کو اجازت ہے کہ وہ آئے اور جیسی پوجا کرنا چاہے اور رام للا کے قریب جو پیٹی رکھی اس میں روپئے ڈالے اور چلا آئے۔ اور مسلمان اس طرف کا رُخ بھی کرے تو اسے گولی بھی ماری جاسکتی ہے اس کے تھیلے سے بم بھی برآمد ہوسکتا ہے اور جیل تو اسے جانا ہی ہے ۔ ایسی حالت میں یہ کہنا کہ اس زمین کو نہ مسلمان فروخت کرسکتا ہے اور نہ کسی جماعت یا فرد کو تحفہ دے سکتا ہے۔ اور ہم سے دوسرے معلوم کرتے ہیں اور ہم بورڈ سے معلوم کررہے ہیں کہ مسلمان ہے کہاں؟ اور اس کے پاس کیا ہے جو وہ فروخت کرے یا تحفہ دے؟ چپہ چپہ پر تو پجاری بیٹھا ہے۔
ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ پدماوت نام کی فلم کی مخالفت کرنا ہو یا 26 جنوری کو ترنگا یاترا کو بہانہ بناکر بھگوا جھنڈوں کا جلوس نکالنا ہو یا کوئی بھی بہانہ ہو ہندو بے روزگاروں کی ہر شہر میں فوج ہے جو گلے میں بھگوا انگوچھا ڈالے ہاتھ میں تلواریں لئے ایک موٹر سائیکل پر تین تین سوار ہوکر جدھر جی چاہتا ہے جے شری رام کے نعرے لگاتا ہوا جاتا ہے اور مقامی پولیس کی حیثیت ان کے سامنے وہ ہوتی ہے جو پہرے داروں اور چوکیداروں کی ہوتی ہے۔ وہ عدالت کی عمارت پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرائیں یا جو چاہیں کریں انہیں نہ رانی وسندھیا راجے روک سکتی ہیں اور نہ وزیر اعظم نریندر مودی اس لئے کہ وہ بے روزگار مگر حاکم ہیں۔ بورڈ کے ہر محترم رکن کو معلوم ہے کہ ہر سال جذباتی مسلمان 06 دسمبر کو یوم غم کا ناٹک کرتے ہیں۔ جواز یہ ہے کہ اس تاریخ کو بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ لیکن اس تاریخ کو بھگوا بریگیڈ وجے دیوس مناتی ہے جبکہ وجے یا فتح تو ہارجیت کی جنگ کے بعد ہوتی ہے۔ بابری مسجد کو شہید کرنے والے پانچ چھ لاکھ کی تعداد میں آئے اور مسجد شہید کردی وہ یہ نہیں بتاسکتے کہ ان کا مقابلہ مسلمانوں نے کیا اور بعد میں مسلمان بھاگ گئے۔ اس حادثہ میں نہ کوئی مقابلہ تھا نہ ہوا مگر وجے کا بہانہ مل گیا۔ ہم اس دن سے ڈر رہے ہیں جس دن سپریم کورٹ میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ وہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس زمین پر مسجد تھی وہ سنی وقف بورڈ کی ہے یا رام للا نرموہی اکھاڑہ اور سیتا رسوئی کی ہے۔ اس کے بعد جو جیت کی خوشی یا ہار کے غم کے جو بھگوا جلوس نکلیں گے تو کیا ہوگا؟ صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت کے سامنے 2019 ء کا الیکشن ہے انہوں نے جب صرف چار فیصدی راجپوتوں کے آگے سپر ڈال دی تو رام کے ماننے والے ہندوئوں کو ناراض کرنے کی ہمت کہاں سے لائیں گے؟
اگر خدا کرے سپریم کورٹ زمین کو سنی وقف بورڈ کو دے دے تو پرسنل بورڈ جمعیۃ علماء اور سنی وقف بورڈ اس کے بعد کیا کریں گے؟ یہ تو بار بار ثابت ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس صرف قلم ہے وہ زمین وقف بورڈ کو دے دے تو کیا اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس مندر سے رام للا کی اس مورتی کو ہٹا دے جسے 1949 ء میں وزیراعظم جواہر لعل نہرو مسجد کے اندر سے نہ ہٹوا سکے۔ اس وقت جو پنت جی نے کہا تھا کہ خون خرابہ ہوجائے گا اس وقت دس بیس کے مرنے کو ہی خون خرابہ کہا جاتا تھا اور اب ہزاروں کے بعد بھی خون خرابہ نہیں ہنگامہ کہا جاتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آج اجودھیا کی حیثیت وہ ہے جو کفار مکہ کے اقتدار کے زمانہ میں مکہ کی تھی بیت اللہ میں مورتیاں رکھی رہیں ان کی پوجا ہوتی رہی اور جب مٹھی بھر مسلمانوں کی جان خطرہ میں آگئی تو مقابلہ کے بجائے ہجرت کا حکم آیا اور مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے اور جب اللہ نے فتح عطا فرمائی تو بیت اللہ کو پاک کردیا گیا۔ کیا بورڈ کے علماء کرام ایسا کوئی راستہ نکالیں گے کہ فیصلہ جو بھی ہو بے قصور مسلمانوں کی جان پر آنچ نہ آئے؟ فی الحال تو صورت حال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ایک تہائی زمین مسجد کی ہے اس فیصلہ کی مخالفت میں ہی بورڈ سپریم کورٹ گیا ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ مان لیا جاتا تب بھی تہائی حصہ پر کوئی مسجد نہیں بنانے دی جاتی اور آج اس سے بھی برے حالات ہیں آج تو ایک اینٹ بھی وہاں کوئی مسلمان نہیں لے جاسکتا۔

بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply