دہلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا میں یوں طوفان برپا ہوگیا ، جیسے یہ عام انتخابات (لوک سبھا) کے نتائج ہوں۔ مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے فیصلوں کے بعد بھی اتنا جوش خروش نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر میں CAA، NPR اور NRC کے خلاف تحریکوں اور اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف صوبوں بطور خاص اتر پردیش میں جس طرح احتجاج کرنے والوں پر یوگی سرکار کا قہر برسا، اس نے ہندوستان کی عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا۔اگر یہ کہا جائے کہ دہلی ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کا مرکز رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں دہلی پولیس کی بربریت ، پھر جے این یو کے طلبا پر نقاب پوشوں کا حملہ ، شاہین باغ کے مظاہرے کا قیام، گوپال شرما اور کپل گجر کے ذریعہ جامعہ اور شاہین باغ پر گولی باری جیسے کئی واقعات پے درپے ہوئے تو دوسری طرف اسی دہلی میں مرکزی سرکار کے وزرا اور بی جے پی نے مظاہرین کا حوصلہ پست کرنے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی چرکے لگائے، بطور خاص شاہین باغ کو ٹارگیٹ بنا لیا گیا۔ اس اختلاف میں بی جے پی نے اپنے ترکش کے تمام تیر آزمالیے، تمام اخلاقی حدود توڑ دیے ، حتیٰ کہ عوامی نمائندوں نے اپنے عہدوں کے وقار تک کو اپنے ہی پاؤں تلے روند دیا۔ کبھی وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی، کبھی اس کے مرکزی وزرا نے “گولی مارو” کے نعرے لگا کر اپنے بھکتوں کو فرقہ وارانہ دنگوں کے لیے اُکسایا، کبھی شاہین باغ کو منی پاکستان کہا گیا اور کبھی انھیں ریپسٹ اور لٹیرا کہا گیا۔ اس پورے پس منظر میں مرکزی سرکار، خود وزیر اعظم اور دہلی پولیس کی خاموشی اور بے حسی نے نفرت کے ان شعلوں کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔ نتیجتاً شاہین باغ ظلم و جبر کے خلاف پورے ملک میں ایک استعارہ بنتا چلا گیا اور اس طرح پورے ملک کی عوام دہلی سے جذباتی طور پر جڑتی چلی گئی۔ یہ وابستگی روز بہ روز اتنی بڑھتی چلی گئی کہ ایک وقت آیا جب دہلی سے ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھا شخص بھی خود کو شاہین باغ کی عورتوں اور جامعہ ملیہ کے طلبا کے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ دہلی کی ہر چیخ میں اس کی آواز شامل ہوتی چلی گئی ، حتیٰ کہ ملک کے مختلف شہروں سےلوگ بھی یہاں پہنچنے لگے جن میں پنجاب کے سکھ مردوں اور عورتوں پر مشتمل سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کو دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ، انھوں نے بوکھلاہٹ میں دہلی الیکشن کو “ہندوستان بنام پاکستان” قرار دے دیا ، امیت شاہ نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ نریندر مودی نے بھی شاہین باغ کو دہلی الیکشن کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنے وزارت عظمیٰ کے وقار کو خاک میں ملادیا۔ اس پس منظر میں اب دہلی کا الیکشن صرف دہلی کا نہیں رہا، پورے ہندوستان کا بن گیا۔ اب یہ کوئی صوبائی الیکشن نہیں رہا بلکہ دو بیانیوں (Narratives) کے درمیان کی جنگ ہوگئی جس کا فیصلہ 11 فروری کو ہونا تھا کہ اس ملک کو کس طرف جانا ہے اور کیسے جانا ہے؟ چنانچہ تماشہ ہوا اور خوب جم کر ہوا، پورا ملک سانس روکے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جس میں بی جے پی نے فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام اہم لیڈروں کو جھونک دیا ، یعنی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ اپنے 200 سے زائد پارلیمنٹ ممبر، مختلف صوبوں کے 11وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ اور متعدد مرکزی وزرا کی فوج کو اپنے قریبی حریف اروند کیجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں کھڑی کردی۔ بی جے پی نے ایسا زبردست محاذ نہ مہاراشٹر میں کھڑا کیا تھا، نہ جھاڑ کھنڈ میں؛ اس کی وجہ صاف ہے کہ دہلی کا اسمبلی الیکشن صرف کسی ایک صوبے کو جیتنے سے زیادہ تھا، یہ الیکشن بی جے پی کے نظریاتی وجود کی بقا سے منسلک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو صرف دہلی میں ہی اس کا جشن نہیں منایا گیا بلکہ ہندوستان کی عوام نے اطمینان کی لمبی سانس چھوڑی اور اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔
نتائج آنے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا میں اس پر گفتگو کا دور شروع ہوا، مختلف نقطہ نظر سے ان نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے کچھ تجزیے مختلف و متضاد دلائل پر مبنی ہیں لیکن زیادہ تر بحثیں جذباتی اور ہنگامی ہیں ۔ اگر ان تمام بحثوں اور دعوؤں کو نچوڑا جائے تو اس سے تین بڑے سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں:
(1) کیا دہلی کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کے بیانیے کو ختم کردیا ہے یا اس پر لگام لگا دیا ہے؟
(2) کیا عام آدمی پارٹی کی جیت میں شاہین باغ کے مظاہرے کی شراکت صفر تھی؟
(3) کیا ان نتائج نے اروند کیجریوال کو ہندوستانی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر مستحکم کیا ہے؟
فی الحال ہم انھی تین سوالوں کو اس تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں ، بقیہ ضمنی نکات پر پھر کبھی ہم گفتگو کرلیں گے۔
پہلے سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ دہلی الیکشن کے نتائج نے نہ تو بی جے پی کے بیانیے کو ختم کیا اور نہ اس پر لگام لگائی ہے اور نہ بی جے پی دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اپنا لائن آف ایکشن بدلنے والی ہے اور نہ وہ بیانیہ جس پر اس کا وجود قائم ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو خود دہلی کے نتائج ہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بلاشبہ 62 سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن 2015 کے مقابلے میں 5 سیٹیں کم ہیں اور ووٹ میں ایک فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کو 2015 کے مقابلے اس الیکشن میں 5 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے اور اس کے 5 فیصد ووٹوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی کی ان سیٹوں پر ہی زیادہ تر کامیابی حاصل کی ہے جہاں اترپردیش ، بہار اور جھاڑ کھنڈ کے لوگوں کی اکثریت ہے، گویا بی جے پی کی ان سیٹوں پر جیت بتا رہی ہے کہ وہ بے شک دہلی الیکشن میں ہار ضرور گئی ہے لیکن ملک گیر سطح پر اس کا بیانیہ کمزور نہیں پڑا بلکہ اسے قدرے مضبوطی بھی ملی ہے۔مذہبی بنیادوں پر بی جے پی کی سیاست نے اس الیکشن میں اروند کیجریوال کو بھی متاثر کیا اور انھیں بھی اپنی دفاع میں “جے شری رام ” کے سامنے “بجرنگ بلی” کو کھڑا کرنا پڑا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسا کیا لیکن بہرحال انھیں بیک فٹ ہو کر اپنا بچاؤ اسی قسم کی سیاست سے کرنا پڑا جو صرف بی جے پی کے لیے مخصوص ہے۔ گویا نہ چاہتے ہوئے بھی اروند کیجریوال کو بی جے پی کے بیانہ میں شراکت کرنی پڑی اور انھیں خود کو ہندو ثابت کرنے کے لیے “ہنومان چالیسا” تک پڑھنا پڑا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی نے اروندکیجریوال کا وہی حشر کیا جو کافی پہلے اس نے انھی خطوط پر چل کر کانگریس کا کیا تھا ۔
یاد کیجیے ان دنوں کو،جب بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بولا کہ وہ ہندو مخالف پارٹی ہے اوروہ صرف مسلمانوں کے ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے تو کانگریس کے لیڈر کس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اکثریتی ووٹ کی زمین کھینچی جارہی ہے ۔چنانچہ کانگریس کو اپنی امیج کو درست کرنے کے لیے کانگریس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ یہ افواہ ہے، وہ مسلم پارٹی نہیں ہے اور اس کے بعد اس نے آنے والے دنوں میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے ان اقدام سے اس نظریے کو تقویت ملی کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں یا کسی دوسری اقلیت کے حقوق کے لیے لڑنا کسی سیاسی پارٹی کا لڑنا شرمندگی اور بدنامی کا باعث ہے۔ چنانچہ کانگریس اپنی امیج بدلنے کی کوشش کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یقین کھوتی چلی گئی جو اب تک وہ بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی نے بالکل اسی طرح کا وار دہلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے ساتھ کیا، انھیں پاکستانی دلال کہا، آتنک وادی کہا، شاہین باغ میں بریانی پہنچانے والا ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سرپرستی کرنے والا کہا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال بھی بیک فٹ پر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک بیان دے دیا کہ اگر دہلی پولیس ان کی ماتحتی میں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔ شاہین باغ کی عورتوں کے دل ٹوٹے لیکن یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ممکن ہے کہ ان کی یہ چناوی حکمت عملی ہو۔ لیکن جب نتائج سامنے آگئے تو میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے قد آور لیڈر سنجے سنگھ کا دل ٹٹولتے ہوئے پوچھا کہ اب نتائج سامنے آچکے ہیں تو پھر کیا اروندکیجریوال شاہین باغ جائیں گے؟ اس کے جواب میں سنجے سنگھ صرف آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے 7 صوبوں کی اسمبلیوں کی طرز پر دہلی کی اسمبلی میں CAA، NPRاور NRCکے خلاف قرار داد پاس کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے دہلی میں جامعہ، جے این یو اور شاہین باغ پر ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی، سرکار اور دہلی پولیس کو ٹوئیٹ کرکے پھٹکار بھی لگائی لیکن زمینی سطح پر اسے محض رسمی کاروائی ہی سمجھا جائے گا ۔ اس کے برخلاف پرینکا گاندھی کا ردعمل ذرا مختلف نظر آیا ، وہ نہ صرف جامعہ کے طلبا سے ملیں، انھوں نے دھرنا دیا ، صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دیا، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تشکیل کی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر زخمیوں اور مقتولین کے پریواروں سے ملاقات بھی کی اور انھیں فوری راحت بھی پہنچائی۔
اروند کیجریوال ، عام آدمی پارٹی کے دوسرے لیڈر اور اسی رو میں بہہ جانے والے ان کے حمایتی بھی چناؤ کے درمیان یہی تاثر دینے لگے کہ شاہین باغ کا اس الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے لیےکوئی ایشو ہے۔ اسے بھی عام آدمی پارٹی کی چناوی حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا ، جب کہ اس کے برخلاف بی جے پی نے دہلی الیکشن شاہین باغ کے ہی ایشو پر لڑا۔ نتائج آنے کے بعد سنجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا داؤ الٹا پڑا اور لوگوں نے شاہین باغ کو خواہ مخواہ ایشو بنانے پر عام آدمی پارٹی کوو وٹ دے دیا۔ گویا ناک گھما کر پکڑی جارہی ہے۔ اگر شاہین باغ ایشو ہی نہیں تھا تو داؤ کیسے الٹا پڑا؟ شاہین باغ پر بی جے پی کے جارحانہ اسٹینڈ کی مخالفت میں عوام کا غصہ بھی تو شامل تھا جو دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے ووٹوں کی شکل میں کیش ہوا۔ جن گالیوں کے زہر کا گھونٹ شاہین باغ کی عورتوں نے صبر سے پی لیا تھا، جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو پاکستانی،غدار، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر پولیس نے ان پر جم کر تشدد کیا، جس طرح کھلے عام گوپال شرما اور کپل گجر کی گولیوں کے جواب میں ہاتھوں میں ترنگا لہراتا رہا اور زبان پر انقلاب زندہ بعد کے نعرے ہی گونجتے رہے، کیا واقعی اس کا دہلی کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اوکھلا میں، جہاں جامعہ اور شاہین باغ کے علاقے واقع ہیں، وہاں 80 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے جو دہلی کے تمام علاقوں میں ہونے والی فیصد سے کافی زیادہ ہے، حتیٰ کہ خود اروند کیجریوال کے علاقے میں ووٹ کی فیصد بھی اوکھلا کی فیصد سے کم تھی اور دوسری طرف دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش ششودیا تو بیچارے ہارتے ہارتے بچے، اور بہت کم ووٹوں سے انھیں کامیابی ملی۔ خود اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اوکھلا علاقے میں ایک کافی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کھل کر اعتراف کیا کہ یہ شاہین باغ کی جیت ہے، لیکن آخر یہ ہمت اور یہ اعتراف عام آدمی پارٹی کے بڑے نیتاؤں میں کیوں نہیں نظر آ رہی ہے، وہ شاہین باغ کو Discredit کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی میں کام کیا اور بنیادی طور پر اپنی رپورٹ کارڈ کے بل پر ہی انھیں کامیابی ملی ہے لیکن انھیں اتنی شاندار کامیابی ہرگز نہ ملتی ، اگر اس میں شاہین باغ ، جامعہ اور جے این یو کے اثرات کی شراکت نہ ہوتی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کو الیکشن سے پہلے ، اس کے پرچار کے دوران اور الیکشن کے بعد کناٹ پیلس کے ہنومان مندر جا کر اور نیشنل میڈیا میں ہنومان چالیسا سنانے سے عار نہیں ہے تو شاہین باغ جانے میں کیسی قباحت ؟ کیا شاہین باغ کسی مسجد کا نام ہے، کیا شاہین باغ میں کوئی مذہبی اجتماع چل رہا ہے؟ کیا اروند کیجریوال نہیں جانتے کہ پنجاب کے سینکڑوں سکھوں اور وہاں ہَون کرانے والے ہزاروں ہندوؤں، کشمیری پنڈتوں، چرچ کے نمائندوں کی موجودگی نے شاہین باغ کو ہندوستان کی یک جہتی کا ایسا استعارہ نہیں بنادیا جو ایک طرح سے اب پورے ہندوستانی عوام کے لیے “تیرتھ استھان” کا روپ دھارتا چلا جا رہا ہے۔ پرینکا گاندھی جامعہ کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال کا دورہ کرسکتی ہیں، اتر پردیش جا کر زخمیوں سے ملاقات کرسکتی ہیں، مقتولین کے پسماندگان کی دلجوئی کرسکتی ہیں لیکن آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے بھی جامعہ اور جے این یو کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال تک پہنچنے کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اروند کیجریوال کی پوری سیاست صرف ووٹ کی سیاست کے گرد گھومتی ہے جو ظاہر ہے موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے؟ اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست سے ہندوستان کو متعارف کرایا ہے ، خود کیجریوال نے اس سیاست کو نام دیا ہے: “کام کی سیاست۔” اسی بنیاد پر اب کچھ مبصرین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دہلی کے الیکشن کے نتائج نے اروند کیجریوال کا چہرہ مرکزی سیاست میں متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے، یعنی وہ نریندر مودی کا ایک مضبوط متبادل ہوسکتے ہیں۔ چلیے اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔
فیس بک میں موجود ایک تجزیہ کار پنکج مشرا کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اروند کیجریوال “ٹی 20 “کے کھلاڑی ہیں، ٹیسٹ میچ کے نہیں، لہٰذا وہ ہمیں بہت مطمئن نہیں کرتے۔ بلاشبہ کیجریوال نے دہلی الیکشن میں ایک زبردست جیت حاصل کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی اس جیت سے narrative بدلنے والا نہیں ہے، چونکہ خود اروند کیجریوال نے محتاط طریقے سے اکثریت کی ہی سیاست کی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں “اسٹریٹ اسمارٹ” قسم کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا بی جے پی انھیں بار بار اپنی طرف کھینچتی رہی اور وہ ہاتھ چھڑا کر پھر اسی پالے میں دوسری طرف کبڈی کبڈی کرنے لگے۔ بی جے پی کو اپنے “مرکزی بیانیے” پر کیجریوال کی خاموش سیاست عزیز ہے، مثلاً جس طرح وہ تین طلاق پر خاموش رہے یا گول مول اسٹینڈ لیا ، یا CAA کے معاملے میں کیا، یا پھر 370 کے وقت کیا۔ ریزرویشن جیسے ایشوز پر بھی کیجریوال کی خاموشی بی جے پی کو پسند ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ہندو اور مسلم ووٹ تو بی جے کی مخالفت کے نام پر انھیں مل ہی جائیں گے جہاں وہ براہ راست مقابلے میں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی غنیمت ہے جو اس کے کلیدی narrative پر براہ راست اثر انداز نہیں ہونے والی۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں کم از کم ایک آواز کم ہوجاتی ہے۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ خود عام آدمی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ “اسٹریٹ اسمارٹ پارٹی” ہوگی۔ اس نے پروفیشنل اور تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے “اسٹریٹ اسمارٹٗ “لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ ایسے لوگ اقداری سیاست کی بجائے مقداری سیاست کرتے ہیں یعنی منافع پر مبنی سیاست کے خوگر ہوتے ہیں۔ لہٰذا پارٹی نے سب سے پہلے اقدار پر مبنی سیاست اور کسی حد تک نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے لوگوں کو کنارے کیا کیوں کہ وہ فوری منافع حاصل کرنے والی مقبولیت و شہرت پسند سیاست (Populist Politics) پر بغیر غور و فکر کیے مہر لگانے کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔
کیجریوال کے کام کے طریقوں سے اتنا واضح ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آمر (Authoritarian) ہیں۔ انھیں سُر ملانے والے لوگ ہی پسند ہیں، لہٰذا انھوں نے جلدہی ٹھیک ٹھاک لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔
یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست میں نیا ہونے کے ناطے، کیجریوال کو اگلی دس نسلوں کو سیاست کے ذریعے آباد کرنے کا کاروبار کرنا ابھی نہیں آتا۔ یہ خوبی دھیرے دھیرے ہی پروان چڑھتی ہے۔ ان میں بھی دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ چونکہ انھوں نے ایمانداری کو اپنا USP بنایا ہے، لہٰذا وہ اور بھی زیادہ آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال اروندو کیجریوال نے جس طرح کی سیاست کا دامن پکڑا ہے، دیر سویر انھیں اسی سمت لے جائے گی، وہ کوئی نیا راستہ بنانے نہیں جا رہے ہیں۔
چونکہ یہ اسٹریٹ اسمارٹ لوگ ہیں ، لہٰذا انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس ملک کی عوام کو اتنی بار دھوکا دیا گیا ہے، اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ یہ تک بھول چکی ہے کہ جمہوریت میں عوامی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، سب اپنی جھولی بھرنے آئے ہیں، اور یہ کہ سیاست کا مطلب صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اپنا الّوسیدھا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بے یقینی کے ماحول میں اگر عوام کے ان مغالطوں کو سسٹم کے بنیادی ڈھانچے کو چھوئے بغیر اور بڑے کارپوریٹس سے ٹکرائے بنا تھوڑا بہت بھی دور کردیا جائے تو ظاہر ہے وہ ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا چراغ جلانے کے مترادف ہوگا جو عوام کے لیے کسی مرکری ٹیوب لائٹ سے زیادہ روشن ہوگا۔
دہلی ایک متمول ریاست ہے جہاں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لہٰذا کیجریوال کو ایسے کاموں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سرکاری اسکول، جو کبھی تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی تھے،اسے بہتر کیا گیا،بجلی اور پانی جیسے بنیادی ضرورتوں میں بہتری لائی گئی، پرائمری ہیلتھ سنٹر کے منہدم ڈھانچے کو محلہ کلینک بنادیا گیا۔ وائی فائی، کیمرے وغیرہ اسی طرح کے مقبولیت پسند کام ہیں جن کی تشہیر کی جاسکتی تھی۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کیجریوال کس طرح کی متبادل سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا ملک کیسا ہے، وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ابھی وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ایگزیکٹیویا زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی (Bureaucracy) نوعیت کا کام ہے، وہ اپنی حدود میں اچھی انتظامیہ دے رہے ہیں، لیکن سیاست بنیادی طور پر قانون سازی اور نظری بصارت کا نام ہے جو ان میں نظر نہیں آتی ہے۔
اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھیں نااہل قرار دے دیا جائے یا دہلی میں ان کی شاندار جیت کو کمتر کرکے آنکا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست ہمیں “کم برے” (Better Evil) کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتخابات؛ مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقابلی مطالعے کے ایک موقعہ سوا کچھ نہیں ہیں۔ تقابلی طور پر دیکھیں تو فی الحال ایک طرف تفرقہ بازی کی سیاست ہے اور دوسری طرف ایک ایسی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بنیاد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انحطاط اور کرپٹ سیاست کے دور میں، جب دکھی عوام مایوسی اور سیاست کے ایک طویل عرصے سے گزر رہی ہو، تو ایسی چھوٹی چھوٹی سیاسی فلاحی جماعتیں بھی ایک بڑی راحت ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ایسی فلاحی سیاسی جماعتیں جو کام کریں گی، اس سے زیادہ اس کام کی تشہیر کریں گی، لیکن ان کی ضرورت عوام کو اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ سیاست میں کم از کم عوامی مفاد اور ان کی بہتر زندگی کو ایک ایشو کی حیثیت سے مضبوطی مل جائے گی۔ اگرعوامی مسائل سیاسی ایشو بنیں گے تو لوگوں کی امنگوں میں اضافہ ہوگا اورلیڈروں کو بھی اس پر قائم رہنا پڑے گا۔ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم اروند کیجریوال کی سیاست زہر کاشت کرنے والی نہیں ہے،معاشرتی ڈھانچے میں ہم آہنگی کوختم کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چالاک لوگ ہیں لیکن مکار نہیں ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں