میدانِِ صحافت کے معیار

یہ ایک سچ ہے کہ پاکستان میں اس وقت میڈیا/ صحافت کے لیے حالات کافی حساس ہیں. وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا کے میڈیا اپنے صحافتی تقاضوں پر پورا اتر رہا ہے مگر پھر بھی کچھ معاملات میں ہمارا میڈیا حد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے. چھاپہ مار شوز پر پابندی کا پیمرا کا ایک فیصلہ آچکا ہے مگر اسکے باوجود بھی ہماری صحافت کہاں پہنچ چکی ہے بہرحال اسکا فیصلہ خود صحافت سے جڑے لوگوں کو سوچنا ہوگا.

صحافت کے دوران کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھنا بہرحال خود صحافی کی اپنی زمہ داری ہوتی ہے خصوصاً اسوقت جب ماحول کافی کشیدہ ہو یا پھر صحافی کے یہ علم میں ہو کے اب حالات کسی بھی وقت کنٹرول سے باہر جا سکتے ہیں تو اسوقت صحافتی زمہ داری کو سمجھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹ جانا دانشمندی ہے مگر اس سے ہٹ کر دیکھا جائے کے جو معاملہ عوامی ہو جس پر عوامی حقوق کی پامالی کا خدشہ ہو تو اسوقت صحافی کی زمہ داری بنتی ہے کے وہ ایسے ایشوز کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے اٹھائے.

ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ کراچی میں ایک خاتون صحافی صائمہ کنول کیساتھ پیش آیا.

سوشل میڈیا پر اس وقت اس واقعہ کو لیکر دو رائے پائی جا رہی ہیں.
اور ایسا عموماً ہر واقعہ کے بعد ہوتا ہی ہے کہ عوامی رائے دو دھڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے مگر کبھی بھی کسی بھی حال میں پرتشدد کاروائی کو سپورٹ کرنا اس پر خوشی کا اظہار کرنا انسان کا باشعور اور عقلمند ہونے کو ظاہر نہیں کرتا.

اس طرح کسی بھی وقعہ کو بنیاد بنا کر یا اسکے مکمل پسِ منظر کو جانے بغیر اس کے حوالے سے کسی بھی طرح کی حتمی رائے قائم کرنے سے ہمیشہ ہی گریز کرنا چاہیے. یاد رکھیئے کے کوئی بھی واقع اس وقت تک وقوع پزیر نہیں ہوتا جب تک اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ یا کوئی معقول سبب نا ہو بغیر کسی سبب کے انسانی سماج میں کچھ بھی ہونا ناممکن سی بات ہے.

بعض اوقات کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو صرف معمولی سی غلط فہمی کی بنا پر اس قدر طول پکڑ لیتے ہیں جن کا انجام دل دہلا دینے والا ہوتا ہے اور کبھی کبھار تو خطرناک ترین واقعات صرف ہلکی سی مسکراہٹ اور دو شائستہ بول سے ہی اختتام پزیز ہو جاتے ہیں.
کراچی میں واقع نادرا آفس میں ہونے والا یہ واقعہ مجھ سمیت تمام باشعور افراد کے لیے انتہائی قابلِ مذمت ہے.
مگر اس سارے واقعہ کے پیچھے جو افسوسناک پہلو ہے وہ یہ کہ الیکٹرانک میڈیا میں چینلز کی اس ریٹنگ والی دوڑ نے صحافیوں کو ایسے پروگرامز کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس میں وہ اپنی نوکری کو بچانے کی خاطر اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں. ہم ایسے کئی واقعات آئے روز چینلز پر " اسٹنٹ آپریشن " کے نام پر دیکھتے رہتے ہیں.

کچھ عرصہ قبل ایک ایسا ہی ایک واقعہ سندھ اسمبلی میں پیش آیا جسے اسسٹنٹ آپریشن کا نام دیکر سر انجام دیا گیا تھا مگر اس کے بعد اس پروگرام کے اینکر کیساتھ کیا ہوا یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں.
اس ہی واقعہ کو بنیاد بنا کر پیمرا نے اس طرح کے تمام پروگرامز پر پابندی لگادی اور اسکے ساتھ یہ حکم بھی جاری ہوا کے اس طرح کے کسی بھی طرح کے پروگرام کو کرنے والے صحافی کو سزا اور چینل کے لائسنس کو بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے…
مگر اس کے باوجود ہمارے کچھ صحافی حضرات اور الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ اور سب سے پہلے خبر نشر کرنے کی اس دوڑ نے ابھی تک انہیں ایسے معاملات اور انکی سنگینی سے بےفکر رکھا ہوا ہے.

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں تک صحافی برادری سے جڑے لوگوں کی بات کی جائے تو خود ہمارے کئی صحافی حضرات صحافت کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں. ایک طرف سرکاری صحافیوں کا یہ حال ہے کہ وہ حکومت کی تعریفوں کے اس قدر پُل باندھتے ہیں کے یقین ہونے لگتا ہے کے ضرور ان کا واسطہ زرد صحافت سے ہے یا یہ بھی کسی اعلٰی حکومتی عہدے کی تلاش میں اپنے نمبر بنا رہے ہیں. دوسری جانب ایسے صحافیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بغیر کسی ٹریننگ کے اس میدان میں کود پڑے ہیں.

دنیا کا ہر ملک جہاں آزاد صحافت موجود ہے یا پھر صحافی حکومت کے زیرِ سایہ ہی کیوں نا ہوں وہاں صحافت کے حوالے سے باقائدہ ایک ٹریننگ کا نظام موجود ہے جس سے گزر کر ہی ایک نوجوان صحافت کے اس میدان میں اترتا ہے مگر جہاں ہماری بدقسمتیوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے اسی فہرست میں شمار ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اس معاملے یعٰنی میڈیا میں نوکریوں میں بھی اقرباء پروری سمیت سفارش نے اپنے مضبوط پنجے گاڑے ہوئے ہیں.

ہمارے ہاں صحافت کو لیکر کسی بھی طرح کی کوئی عملی ٹریننگ کا نا ہونا ہمارے پروفیشنل کہلانے پر ایک بدنما داغ ہے.
ہر پروفیشنل فیلڈ کو اپنانے کی کچھ مخصوص ٹریننگز ہوتیں ہیں کچھ کوڈ آف ایتھکس ہوتے ہیں مگر جیسا کے اوپر بیان کیا کے ہماری بدقسمتیوں والی فہرست میں یہ صحافت بھی ہے جس کا کوئی کوڈ آف ایتھکس نہیں ہے نا ہی کوئی ایسی اخلاقی تربیت کا کوئی طریقیکار جسے کرنے کے بعد ایک نوجوان شائستہ لب و لہجے میں سامنے والے کو اپنے سوال کا جواب دینے پر مجبور کر دے.
ہمارے ہاں چینل کا مائیک/لوگَو ہاتھ لگتے ہی بعض صحافی اسے بندوق سے تشبیع دینا شروع کر دیتے ہیں جیسے انکے کوئی ہاتھ رائیفل آگئی ہو جسکی طاقت پر وہ کسی بھی شہری سرکاری ملازم یا کسی کی بھی وردی کو سرعام کھینچ سکتے ہیں..

نادرا آفس میں ہونے والا افسوسناک واقعہ اور اس طرح کے اور بھی معاملات تب ہی ہوتے ہیں جب آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ یا میدان عمل میں آپ کا رویہ سامنے والے کو آپ سے بیزار، اکتاہٹ کا شکار یا مکمل آپ کے خلاف زہنی طور پر تیار کر دیتا ہے پھر آپ کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کے آپ سامنے والے کے ہر طرح کے ری ایکشن کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھیں اور یہ بھی آپ ہی کی زمہ داری ہے کہ سامنے موجود شخص سے آپ کسی بھی اخلاق سے گرے رویے کی امید رکھ کر اپنے آپکو ہر ممکنہ طور پر پیش آنے والے ردِ عمل سے بچا کر رکھیں.
سب سے اہم اور آخری بات وہ یہ کے صحافت سمیت تمام پروفیشنل شعبوں میں مرد اور عورت کی کوئی تقسیم نہیں اور نا ہی کرنی چاھیے جب آپ ایک صحافی بنتے ہیں تو مرد ہوں یا خاتون آپ اس تقسیم سے باہر نکل جاتے ہیں. صحافت کے عملی میدان میں صرف آپ ایک صحافی ہوتے ہیں مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے اس واقعہ کو خالصتاً صنفی روپ دیکر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ نہایت قابل مذمت عمل ہے.
دوبارا یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان واقعی صحافت کے لیے ایک بہتر ملک نہیں مگر اس میں صحافت کا کیا قصور…؟
کیا اسے آج اس نہج پر پہنچانے والے خود صحافی حضرات نہیں…؟

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ پاکستان اور اس میں ہونے والی اصل صحافت کا حامی و ناصر ہو.

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply