ہدایت نامہ لیکچرار۔۔طارق احمد/قسط2

پہلوان سے رہائی ملی۔ تو برف خانہ چوک میں جا کر پھنس گئے۔ چار جانب سڑکیں جا رہی تھیں۔ اور ان سڑکوں پر قطار در قطار تانگے چلے جا رہے  تھے۔ اللہ میاں یہ اسلامیہ کالج کس سڑک پر ہے۔

ایک راہگیر سے پوچھا۔ بھا جی ہم نے اسلامیہ کالج جانا ہے۔۔ بھا جی نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے ہم کوئی مخبوط الحواس شخص ہیں۔ اور راستہ بھول چکے ہیں ۔ اشارہ کرکے بولا ۔ وہ ہے اسلامیہ کالج۔ یعنی ہم عین اسلامیہ کالج کے پاس کھڑے تھے  اور ہونقوں کی مانند اس کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ غالباً  پہلوانی اثرات ابھی تک ہم پر طاری اور بھاری تھے۔ کالج کے گیٹ پر پہنچے اور وہاں موجود چوکیدار سے اپنا تعارف کروایا ۔۔

ہم استاد بن کر اس کالج میں آئے ہیں،تو ہمارا یہ خیال تھا کہ  چوکیدار پورے پروٹوکول اور عزت و احترام کے ساتھ ہمیں آفس تک چھوڑنے جائے گا۔ کہ ایک نئے استاد محترم کالج میں رونق افروز ہوئے ہیں۔ تو ہماری یہ خواہش فوراً  ہی  اس حسرت میں تبدیل ہو گئی جس پر شاعر نے آنسو بہا کر سونے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت چوکیدار کی حالت کسی ایسے مرغبان کی تھی  جو اپنی مرغیاں ٹوکرے کے نیچے بند کرنے کی کوشش کر رہا ہو، لیکن ہر بار ایک آدھ ککڑی پھڑپھڑاتی باہر نکل جائے۔ کالج کے لونڈوں سے فرصت پا کر چوکیدار نے قدرے تہذیب سے کہا۔ آپ آفس میں پہلوان کے پاس چلے جائیں۔ وہ آپ کا سارا کام کر دے گا۔

ہم نے کچھ گھگھیا کر پوچھا۔۔ ہیں جی کون سا پہلوان؟۔۔۔ چوکیدار نے مسکرا کر کہا۔ اسلام پہلوان !

ہمیں لگا۔ بات جیسے ہمارے کام کی نہیں بلکہ کام تمام کی ہو رہی ہو۔ یعنی۔۔

ایک اور پہلوان کا سامنا تھا مجھ کو منیر

میں ایک پہلوان کے پار اترا تو میں نے دیکھا!

اور پہلوان بھی وہ جس کا نام اسلام تھا۔ وہ اسلام جو اسلامیہ کالج کا ملازم تھا  یعنی ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا ، اور نیم بھی گوالمنڈی کا۔ جہاں یہ نیم لیکچرار استاد بن کر آیا تھا۔ گویا ہماری استادی کے چرچے تھے آسمانوں میں ۔

اسلام پہلوان کے سامنے پیش ہوئے ۔ پہلوان نے حکم جاری کیا۔ پرنسپل کے نام ایک درخواست لکھی جائے جس میں یہ عرض کی جاوے۔ کہ ہمیں کالج جوائن کرنے کی اجازت دی جائے۔

ہم نے یہ درخواست لکھی اور بمع درخواست ہمیں پرنسپل کے سامنے لائن حاضر کر دیا گیا۔ وہاں پانچ مزید نئے بھرتی شدہ لیکچرار اپنی گردن نیہوڑے، نظریں جھکائے باادب با ملاحظہ تشریف فرما تھے۔ پرنسپل صاحب ہمیں ایسے گھور رہے تھے جیسے بکر منڈی میں کوئی قصاب قربانی کے بکروں کو ٹٹولتا ہے۔ ہمیں ڈر تھا  پرنسپل صاحب کہیں ہمارے منہ کھلوا کر یہ چیک کرنا شروع نہ کر دیں۔ ہم کھیرے ہیں یا دوندے ۔ ایک بار وہ اپنی سیٹ سے اٹھے  تو خوف دامن گیر  ہوا جیسے وہ ہمارے  کپورے چیک کرکے دیکھنے لگے ہیں۔ ہم خصی ہیں یا بو مارتے ہیں ۔ تصور میں سری پائے اور اوجڑیاں لہرانے لگیں ۔

دراصل یہ ہمارے پہلے پرنسپل تھے اور پرنسپل بھی خاصے وسیع و عریض تھے۔ کرسی کی دونوں  جانب تجاوزات کی شکل میں ان کا پھیلاؤ تھا  اور پیٹ میز کی سرحد کو چھو رہا  تھا۔ جبکہ کرسی اور میز کے درمیان ایک فٹ کا فاصلہ تھا۔ وہ اپنی پہلوانی باڈی لینگویج اور گھورتی نگاہوں سے ہمیں پہلے دن ہی مکمل ملیامیٹ کرنے کے موڈ میں تھے۔ انہوں نے ہم چھ نیم بسمل ،نیم جاں، نیم لیکچراروں کو دیکھا۔ جو گھر سے نئی  سر سبز چراگاہوں کی آس لے کر نکلے تھے۔۔۔ اور اعلان فرمایا، کالج میں نئے لیکچراروں کی گنجائش نہیں ہے۔

ہم نے لجاجت سے عرض کی۔۔ سر کچھ کریں! ہم اور ہمارے ہونے والے بچے تاحیات آپ کے مشکور اور احسان مند رہیں گے۔ پرنسپل صاحب نے خوش ہو کر شفقت فرمائی  اور کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ہمیں جوائن کروا یا  بلکہ اپنی میز کی دراز سے دس سال پرانے نمکین بسکٹ نکال کر ہمارا منہ بھی میٹھا کروایا۔

جب یہ کام تمام ہوا  اور مبارک سلامت کا غلغلہ کم ہوا  تو پرنسپل صاحب نے ہمیں مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں۔ فرمانے لگے۔ چونکہ آج سے آپ آفیشلی باقاعدہ طور پر پروفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں ، چناچہ آپ کا آج سے لائف اسٹائل بھی تبدیل ہو گیا ہے اور آپ کو نئے لائف اسٹائل پر عمل شروع کرنا ہو گا۔ تاکہ آپ کے نان ڈسپلن رویے کی وجہ سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے معصوم طلباء کی کردار سازی پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں ۔

آج سے آپ سڑک پر چلتے ہوئے ریت کی چھلی کے ساتھ منہ ماری نہیں کریں گے۔ کسی ریڑھی پر کھڑے ہو کر کنوں انجوائے نہیں کریں گے۔ سڑک پر کیلے نہیں کھائیں گے،نہ ادھر ادھر چھلکیں پھینکیں گے۔ بازار میں مرچ مصالحے والی مولی نہ کھائیں گے۔ کالج گیٹ کے سامنے صادق پہلوان سے حلوہ پوری کا ناشتہ نہیں کریں گے  نہ ہی اس کی اعلی پائے کی گالیوں میں سننے کی حد تک شریک کار ہوں گے۔ پہلوانوں کی دکان سے سر عام پیڑے والی لسی نہیں پییں گے۔ نہ آسودگی بھرے ڈکار لیں گے،پٹھورے اور ہریسے سے دائمی پرہیز کرنا ہو گا۔ ناک کی سیدھ میں کالج آنا ہو گا  اور الٹی سیدھ میں واپس جانا ہو گا۔ کالج ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھتے وقت میز پر ٹانگیں رکھنے سے احتراز کرنا ہو گا۔ ڈیپارٹمنٹ میں بلند آواز میں گانا گانا یا میز بجانا منع ہے۔ طلباء سے ذاتی دوستانہ مراسم قائم کرنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ طلباء بے فیض ہوتے ہیں۔ کوشش کریں  کالج میں چائے نہ پییں ۔ سردیوں کے دن ہیں، ٹائلٹ جانے کی حاجت ہو گی۔ جبکہ کالج میں کوئی قابل حاجت ٹائلٹ نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم یہ تمام ہدایات سن رہے تھے اور اس اندھے حافظ کو یاد کر رہے تھے۔ جس نے کہا تھا” اگر میں نے حلوہ نہیں کھانا تھا  تو میں اندھا کس شوق میں ہوا تھا”۔
جاری ہے!

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply