کچھ دوستوں کی رائے میں جن مرد و خواتین کی شادی کی عمر گزر چکی ہو اور بارہا ان کے رشتے مسترد ہو چکے ہوں انہیں زندگی کے اس باب کو اپنے لئے بند سمجھ کر صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیئے اور یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اب باقی زندگی ایسے ہی مجرد گزرے گی۔۔اور اس صبر کا صلہ انہیں آخرت میں ملے گا۔
بہت احترام کے ساتھ مجھے اس رائے سے اختلاف ہے۔ شادی انسان کی جسمانی ضرورت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔
ہر مرد اور عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی نگاہ کا مرکز بنے کوئی ایسا ہو جو اس سے اٹیچ ہو۔۔اس سے محبت کرے۔۔اس کا خیال رکھے۔۔اس کی باتیں سنے۔۔ اس کی پریشانیوں میں اس کا ساتھ دے۔ اس کی خوشیاں ساتھ انجوائے کرے۔
کچھ عرصہ قبل ایک خاتون جو سپیشل تھیں۔ان کے بارے میں سنا تھا کہ وہ کسی مرد کے ساتھ نکاح کے بندھن میں صرف اس لیے بندھنا چاہتی ہیں کہ ایک محرم رشتہ ہو جس کے ساتھ وہ صرف فون پر اپنے دل کی بات شیئر کر سکیں۔
پیٹ کی بھوک کے بعد طاقتور ترین جذبہ انسان کی جبلی ضرورت کا جذبہ ہے۔۔ اگر کسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہو گئی ہے تو مایوس ہو کر باقی زندگی برباد کیوں کی جائے۔۔ زندگی امید ہی کا تو نام ہے۔ جب تک سانس ہے تب تک امید نہیں چھوڑنی چاہیئے۔
چالیس پینتالیس سال کی عمر کے بعد اس چیپٹر کو بند کر دینے کا مشورہ میری رائے میں درست نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ساری عمر ڈھنگ کا روزگار نہیں مل پاتا۔۔ تو پیٹ کی بھوک مٹانے کا کوئی نہ کوئی سامان تو انہیں بھی کرنا پڑتا ہے۔ کوئی انہیں یہ مشورہ تو نہیں دے سکتا کہ اگر ڈھنگ کا روزگار میسر نہیں تو باقی زندگی اب روزہ رکھ کر گزار دو۔۔
یہ تو معاشرے کے دوسرے افراد کی ذمہ داری ہے کہ اوور ایج لوگوں کے گھر بسانے کی فکر کریں۔ اگر کسی کی ڈیمانڈز بہت زیادہ ہیں اور اس وجہ سے رشتہ نہیں ہو پایا تو ان کی کونسلنگ کی جائے۔۔انہیں سمجھایا جائے کہ کم ڈیمانڈز کے ساتھ مناسب رشتہ تلاش کرکے شادی کر لے۔۔ ایسے لوگوں کو زندگی سے مایوس کرنے کی بجائے انہیں زندگی کے دھارے میں واپس لایا جائے۔۔
ہمارے دین میں سنگل رہنے کی بجائے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ کہ اس کے ذریعے انسان اپنی جسمانی و نفسیاتی ضرورت کو جائز طریقے سے پورا کرتا ہے۔ نکاح کو آسان بنانے اور عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی مرد و عورت مجرد نہ رہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں