کب بدلیں گے ہم؟

کراچی میں ایک اور فیکٹری آتشزدگی کا شکار ہو کر خاکستر ہو گئی۔ حسبِ سابق اس مرتبہ بھی ہر کوئی حکومت کو کوس کر اپنے ہاتھ جھاڑ لے گا، کچھ دن محکمہ فائر بریگیڈ کے لتے لئے جائیں گے، اس کے بعد مکمل خاموشی۔۔۔ فیکٹری کے مالک انشورنس کلیم داخل کر کے اپنا نقصان پورا کرلیں گے اور حاصل شدہ رقم سے دبئی یا پانامہ کی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کردیں گے۔ کوئی ان کا محاسبہ نہیں کرے گا کہ آیا خود انہوں نے ضابطے اور قانون کے مطابق آتشزدگی سے نمٹنے کے انتظامات مکمل کر رکھے تھے یا نہیں؟ ہمارے صنعتکاروں کی اکثریت اپنی پیداواری لاگت بچانے کے چکر میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے قوانین سے دانستہ پہلو تہی کرتی ہے کیونکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنا دامن جھاڑنا اس ملک میں سب سے آسان کام ہے۔ سانحہ بلدیہ ہو یا گڈانی کا واقعہ، میڈیا بھی صرف اور صرف حکومتی کوتاہیوں کی تاک میں رہتا ہے۔ کوئی ان نجی سرمایہ کاروں کا محاسبہ نہیں کرتا جو چند روپوں کی خاطراپنے ملازمین کی زندگیاں خطرے سے دوچار رکھتے ہیں، اسی طرح عوام بھی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جو کہ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری اور ملازم ان پر عائد ہوتی ہیں۔ کراچی شہر میں چلنے والے کارخانوں کی اکثریت میں آپ کو وہاں کے ملازمین کھلے بندوں حفاظتی اصولوں اور قوانین کی دیدہ و دانستہ خلاف ورزیاں کرتے نظر آئیں گے۔۔ چاہے وہ کام کی جگہ پر کھلی چپلوں کا استعمال ہو، سگریٹ پی کر ماچس جلتی چھوڑ دینا ہو، غیر مختص مقامات پر سگریٹ نوشی ہو، بجلی کے آلات کے استعمال میں بے احتیاطی ہو، چلتی مشین میں ہاتھ ڈال کر نام نہاد بہادری کے مظاہرے ہوں یا آگ بجھانے والے آلات سے چھیڑ چھاڑ، ایک طویل فہرست ہے ان غیر ذمہ دار رویوں کی جو عوام کی جانب سے دکھائے جاتے ہیں اور یہ صرف کام کی جگہوں تک محدود نہیں، یہ رویے اب ہمارا عمومی معاشرتی مزاج بن چکے ہیں اور شہر میں جگہ جگہ موجود پان گٹکے کی پیک اور بسوں سے لٹک کر مستیاں کرتے نوجوان ہمارے شہری اخلاقیات سے نابلد ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کیا جائے اور اپنی انفرادی ذمہ داریوں کا ادراک کیا جائے۔ معاشرے کا اجتماعی شعور اس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونے کے لیے تیار نہ ہو۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply