آؤٹ سورس اور بزنس آؤٹ سورس ملازمین

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

نوکری پیشہ افراد اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں اورواقف کیسے نہیں ہوں تعلیم کے بعد اچھی نوکری کی خواہش اور ادھورے خوابوں کی تکمیل ہرشخص کا بنیادی حق ہے۔ لیکن ان آرزوں اور امنگوں کو ثبوتاز کرنے میں جہاں حکومتی غیردلچسپی اور لا پرواہی ایک بڑا عنصر ہے وہاں کمپنیزکی وہ مکارانہ اور پیشہ ور چالاکیاں بھی قابل غور ہیں جواپنے ملازمین کا خون توطفیلیوں کی طرح چوستے ہیں لیکن اچھی اجرت یا ملازمین کے بنیادی حقوق پر چپ سادھ لیتے ہیں اور حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ ملازمین خوشحالی کو چھو کر بھی نہیں گزریں اور ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ انکی سوچ صرف اپنے پیٹ کے ایندھن تک ہی محدود رہے اور اپنے حقوق کے لئے کوئئ آواز بلند کرنے کی جرات بھی نہیں پیدا کر سکیں۔

دولت کے پجاری ہمیشہ اپنے جیسے انسانوں کو محکوم بنانا پسند کرتے ہیں اور اولیں ترجیح یہی ہوتی ہے کہ اپنی جیب پر وزن بھی نہیں آنے پائے اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ اسی جبلت کی تسکین کے لئے کبھی فرعون زبردستی غلام بنا کر مفت میں بیگار لیتے رہے اور کبھی ماضی کے فاتح ٹڈی دل فوجیں اکٹھی کرکے مال غنیمت کے لئے شب خون مارتے رہے۔

وقت نے کروٹ بدلی زمانہ بدلا اور طریقے بھی بدل گئے مال غنیمت کے لئے اب نہ تو بادشاہت کی ضرورت رہی اور نہ ہی جنگ و جدل کی۔
جی آپ صحیح پہنچے سرمایہ داروں نے چھوٹی بڑی کمپنیز کھول لیں۔ لوکل کمپنیز میں تو صورتحال بہیت ہی گھمبیر ہے ملازمین کو کسی طرح بھی ایسی سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں کہ وہ ایک پر آسائش زندگی گزارنے کا تصور بھی کر سکیں۔

لیکن ملٹی نیشنل کمپنیزز بالخصوص چائنیز کمپنیوں تو اندھیر نگری چوپٹ راجہ کی ضرب المثل پر سو فیصد پوری اترتی ہیں۔ یہ کمپنیز جس ملک میں بھی قدم رکھتی ہیں ابتدا میں ایسے دلکش پیکج متعارف کراتی ہیں جو نہ صرف ملازمین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں بلکہ کسٹمر کی توجہ کا بھی مرکز بنتی ہیں۔ رفتہ رفتہ جب مارکیٹ میں قدم جم جاتے ہیں تو پھر ملازم اور کسٹمر اس کا خمیازہ بھگتتےہیں سب مراعات دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوجاتی ہیں اور ایک طویل عرصہ وابستگی کے بعد آپ کے پاس ان کے علاوہ کوئی دوسری چوائس بھی نہیں رہتی۔

ذاتی تجربہ کی بنیاد پر ٹیلی کام چائنہ کمپنی کے متعلق بارہا لکھ چکا ہوں۔ پہلے سب ملازمین ڈائریکٹ کمپنی کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور بہیت ہی پر کشش سیلیری اور مراعات ملتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر ملازمین کواآؤٹ سورس کردیا جاتا ہے۔ یعنی آپ سب کام اس کمپنی کے لئے کرتے ہیں لیکن آپ کو اپا ٹمنٹ لیٹر کسی دوسری کمپنی کا اشو ہوتا ہے اور وہ آؤٹ سورس کمپنی برائے نام صرف کاغذات تک ہی محدود ہوتی ہے نا تو ان کا کوئی باقا عدہ آفس ہوتا ہے اور نہ ہی آپ اس کمپنی کی بیس پر عدالت جا سکتے ہیں۔

آؤٹ سورس کمپنی متعارف کرانے کا مقصد مییجر کمپنی کا ٹیکس بچانا اور شرح منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوتا ہے۔ ملازمین سے ہفتہ کے سات دن کام لیا جاتا ہے۔ لیبر لاء کے آٹھ ورکنگ آورز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آپ روزانہ 12 سے 16 گھنٹہ کام کرتے ہیں۔ ہفتہ اتوار، نیشنل ہالیڈے ، پبلک ہالیڈے آپ کے لئے نارمل ورکنگ ڈے ہوتے ہیں۔ مہینہ میں اگر 200 گھنٹہ بھی اوور ٹائم کر لیں آپ کو اجرت 20 یا 40 گھنٹوں کی ملے گی اور آپ حرف شکایت بھی اپنے لبوں پر لانے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ آپ مہیںہ میں 15 راتیں جاگ کر بھی کام کریں گے لیکن آپ کو صرف 5 یا 10 راتوں کا معاوضہ ایک ہزار روپیہ مبلغ سے نوازا جائے گا۔

میڈیکل اور انشورنس کے نام پر بھی آپکے ساتھ دھوکہ کیا جاتا ہے میڈیکل میں اوپی ڈی کی سہولت نہیں دی جاتی اور صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی کمپنی آپکو میڈیکل کی ناکافی سہولت میسر کرتی ہے۔کمپنی فیملی میمبرز والدین ، بیوی اور بچے وغیرہ کو میڈیکل کی کوئی بھی سہولت مہیا نہیں کرتی۔

اچانک موت ،حادثاتی موت یا زخمی ہونے کی صورت میں کمپنی کسی بھی صورت میں کوئی انشورنس نہیں دیتی حتٰی کہ اگر حادثہ کوئی آفیشل ذمہ داری نبھاتے ہوئے بھی وقوع پزیر ہو آپ کے ورثاہ کو اس مد میں کوئی سپورٹ نہیں مل سکتی۔

ایک واقعہ جو سب نے سنا ہوگا اختصار کے ساتھ عرض ہےکہ کسی بادشاہ نے اپنی عوام پر پانی ہوا سانس لینے غرضکہ ہر چیز پر ٹیکس لگایا لیکن عوام خاموش رہی۔ بادشاہ نے سوچا بہت ڈھیٹ عوام ہے اس نے صبح گھر سے کسی کام سے بھی نکلنے والوں کو دو جوتے لگانے کا حکم دے دیا۔ دو سے چار،چار سے چھ جوتے بڑھا دیئے گئے لیکن عوام تھی کہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ جوتے بڑھا کر آٹھ کردیئے گئے تو اگلے دن ہیں کسی نے انصاف کی زنجیر کھینچی۔ بادشاہ نے سوچا شاید عوام کا ضمیر جاگ گیا ہے حکم دیا کہ فریادی کو حاضر کیا جائے۔ ایک بوڑھا ہانپتا ہانپتا حاضر ہوا۔ عالم پناہ آپ نے ہر چیز پر ٹیکس لگایا ہم خاموش رہے آپ نے جوتے پڑوائے ہم خاموش رہے دو سے چار ، چار سے چھ ، چھ سے آٹھ کردیئے غضب خدا کا اب اپنے اہلکار بڑھا دیں صبح کام پر جانے سے دیر ہوجاتی ہے۔

ڈائریکٹ ملازمت سے آؤٹ سورس اور اب آؤٹ سورس سے بزنس آؤٹ سورس کی نئی اصطلاح وجود میں آچکی ہے۔ حکومتی ادارے ہمیشہ کی طرح ستو پی کر سورہے ہیں اور جو ملازم ہیں وہ اس لئے چپ ہیں کہ "ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں"۔ میری باری تو شاید آنی ہی نہیں مجھے کیا ضرورت ہے پرائے بکھیڑے میں پڑنے کی۔
بزنس آؤٹ سورس ایمپلائز کوذاتی میڈیکل کی کوئی سہولت نہیں دی جائے گی۔ اوور ٹائم کی صورت میں ایک پائی بھی نہیں ادا ہو گی۔ دن میں کام کریں یا رات میں کسی قسم کا الاؤنس نہیں دیا جائے گا۔ ایک شہر سے دوسرے شہرآفیشل ٹور کی صورت میں کسی قسم کا ڈیلی الاؤنس ، ٹریولنگ الاؤنس یا ہوٹل الاؤنس نہیں دیا جائے گا۔آپ کو صرف تنخواہ ملی گی اور وہ بھی شاید دو ماہ بعد ایک سیلری۔

جایئے صاحب کورٹ بھی شوق سے جائئے آپ سے اتنے فارمز پر ساٰئن لیا جا چکا ہے کہ آپ کا کمپنی سے کسی بھی صورت میں کوئی تعلق نہیں ہے اورکمپنی آپ کے کسی بھی معاملہ میں نفع و نقصان کی ذمہ دار نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اتنا سب کچھ پڑھنے کے بعد آپ لیبر کورٹ میں چلے جائیں ، منسٹری آف لیبر کو کوئی مراسلہ لکھ دیں۔ کوئی اتحاد یا بائکاٹ کر دیں کہ شاید دال گل جائے۔

جو قوم آج تک دہشت گردی کے تعین اور انصاف کے حصول کے لئے تذبذب کا شکار ہے ہو سکتا ہے کہ اپنے حقوق کے لئے جاگ جائے ورنہ یہ کمپنیز بزنس آؤٹ سورس کے بعد کوئی ایسا سورس متعارف کرائیں گی جس پیکج میں دو وقت کی روٹی ، مہینے کے چار سوٹ اور ایک سگریٹ کا پیکٹ عیاشی کے لئے ضرور شامل ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلادیتے ہیں

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”آؤٹ سورس اور بزنس آؤٹ سورس ملازمین

Leave a Reply