بدلتے کے پی کا بدلتا تعلیمی نظام۔۔۔شاہد اقبال خان

ولسن سینٹر ایشیا پروگرام نے 2016 میں کے پی کے تعلیمی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق ایک رپورٹ پبلش کی جس میں ٹیچرز، آفیسرز، کمیونیٹیزاور والدین سے انٹرویوز کے بعد ان تمام حقائق اور دعوؤں  کی تصدیق کی جو کے پی حکومت تین سال سے کر رہی تھی اور اس رپورٹ کے مطابق کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت نے جو تعلیمی پروگرام شروع کیا تھا وہ نہایت تیزی اور بہترین افادیت کے ساتھ جاری ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کے پی حکومت کا یہ پراجیکٹ تعلیمی مد میں ورلڈ بنک سے ادھار لینے کی بجائے  ڈی  ایف  آئیٖ  ڈی  سے سپانسرڈ ہے۔

https://www.wilsoncenter.org/sites/default/files/pakistanseducationcrisistherealstory2.pdf

کے پی کے تعلیمی نظام میں آنے والی تبدیلیوں میں سے کچھ اہم مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ صوبے بھر میں 2013 میں پہلی جماعت سے یونیفارم تعلیمی نظام نافذ کیا گیا جس کے ذریعے کے پی حکومت نے مدرسوں، گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان  تعلیمی خلیج کم کرنے کی کوشش کی۔ اگلے سات سالوں میں یہ سلیبس میٹرک تک مکمل طور پر نافذ   ہو جائے  گا۔ اس سلسلے میں مزید ریفارمز پر کام جاری ہے۔

https://www.khaleejtimes.com/international/pakistan/khyber-pakhtunkhwa-welcomes-revolutionary-reforms

۲۔ صوبے بھر میں سکولز اور ٹیچرز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ ٹیچرز پر کام کا بوجھ کم کرنے اور معیاری تعلیم کے لیے چالیس بچوں کے لیے ایک ٹیچر کا قانون بنایا گیا۔ پورے صوبے میں پچھلے چار سال میں چالیس ہزار ٹیچرز بھرتی ہوئے ۔ اسی ہزار سے زائد کتابیں بچوں میں مفت تقسیم ہوئیں۔ صرف ایک شہر صوابی میں اب تک چھبیس جدید سائنس لیبارٹریز، چوبیس کمپیوٹر لیبارٹریز جبکہ  72 کھیلوں کےمیدان تعمیر ہوئے۔

https://www.dawn.com/news/1330546

https://www.globalvillagespace.com/kpk-government-brings-revolutionary-changes-in-education-sector/

۳۔   کے پی حکومت نے ان بچوں کو سکول لانے کے لیے ایک ہزار ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا جو کام کرنے کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان والدین کو چھے ماہ کی جیل کا بل بھی پاس کیا جو بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔ اس کے شاندار نتائج  برآمد ہوئے۔ اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے ۲۰۱۵ کے تعلیمی سال کے اعدادوشمار جاری کیے جن کے مطابق بچوں کے سکول میں داخلے کی تعداد میں اس سال کے پی میں ایک سو پینتیس فیصد اضافہ ہوا جبکہ پنجاب میں یہ تعداد ایک سو گیارہ فیصد رہی۔

https://www.globalvillagespace.com/kpk-government-brings-revolutionary-changes-in-education-sector/

۴۔ تعلیمی نظام کے انفراسٹرکچر اور سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے کے پی حکومت نے بجٹ بڑھانا شروع کیا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی  تو یہ بجٹ اکسٹھ ارب سالانہ تھا۔ کے پی حکومت نے اس میں مسلسل اضافہ کیا اور صرف چار سال میں یہ ایک سو اٹھائیس فیصد اضافے کے ساتھ ایک سو انتالیس ارب روپے پر پہنچ چکا ہے۔

https://www.dawn.com/news/1188326

https://propakistani.pk/2017/04/05/kpk-allocate-rs-139-billion-education-upcoming-budget/

۵۔ دہشتگردی سے تباہ حال سکولوں کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا اور نوے فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔ صرف مالا کنڈ ڈویژن میں ایک سو بیاسی سکولوں میں سے ایک سو اناسی سکولوں کی تعمیر نو کا کام مکمل ہو چکا ہے۔

https://tribune.com.pk/story/1348384/179-militancy-hit-schools-reopen-students-malakand-division/

۶۔  کے پی تعلیمی ریفارمز اور سہولیات نے والدین کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں پرائیویٹ سکولوں سے بچے گورنمنٹ سکولز میں شفٹ ہو نا شروع ہوئے ۔ صرف 2014 میں چونتیس ہزار بچے شفٹ ہوئے جبکہ اب کل چار سال میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے گورنمنٹ سکولز کا رخ کر چکے۔

https://tribune.com.pk/story/1127618/private-public-34000-students-make-transition-government-schools/

https://pakobserver.net/151000-students-shift-private-govt-schools/

کے پی حکومت کی تعلیمی کامیابیوں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو دو اعتراض سامنے آتے ہیں۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ کے پی حکومت نے دو سو کے قریب سکول بند کیوں کیے۔ دراصل کچھ علاقوں میں آبادی بہت کم ہے جس وجہ سے وہاں بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اسی جگہ پر ایک اور سکول کی سہولت بھی میسر ہے۔ تو انتظامی اور مالی بچت کے لیےایسے سکول بند کیے جن کی ضرورت نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میٹرک کے امتحان میں گورنمنٹ سکولز کے بچے پوزیشنز کیوں نہیں لے رہے۔ دراصل کوئی بھی نظام کی تبدیلی پرائمری سطح پر ہی لاگو کی جاتی ہے اور اسے اعلی سطح پر  رزلٹ دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ بچے جو اب پرائمری تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ جب میٹرک تک پہنچیں گے تو ان کی تعلیمی کارکردگی میٹرک امتحانات کے نتایج میں بھی نظر آئے گی۔

Facebook Comments

Shahid Baloch
شاہد اقبال خان پی ایچ ڈی بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالبعلم ہیں اور سپیریر ہونیورسٹی لاہور کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستانی سیاست، معاشرتی مسایل، معیشت اور کرکٹ جیسے ٹاپکس پر لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply