• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کابل کے انسانوں کا لہو بھی سرخ ہی ہے۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

کابل کے انسانوں کا لہو بھی سرخ ہی ہے۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

ایک ایمبولینس بڑی تیزی سے کابل کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے علاقے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چیک پوسٹ پر اسے اہلکار روکتے ہیں اور ایمبولینس سمجھ کر زیادہ تحقیق مناسب نہیں سمجھتے اور آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے، اس کے تھوڑی دیر بعد ہی  یہ ایمبولینس اتنے زور سے پھٹتی ہے کہ اس سے نکلنے والا بارود کئی عمارتوں کو زمین بوس کر دیتا ہے، سڑکوں پر رزق حلال کی تلاش میں آئے نہتے انسان تو اس کی زد میں آنے ہی تھے، دفتروں میں موجود لوگ بھی اس بارود سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اتنا شدید دھماکہ تھا کہ پورے کابل شہر میں اس کی آواز سنی گئی اور  اس کا دھواں ایک بادل کی طرح شہر کے ایک حصہ پر چھا گیا۔ تھوڑی دیر میں چیختی چنگھاڑتی ایمبولینسز جائے وقوعہ کی طرف جا رہی تھیں۔ جائے وقوعہ کیا تھی، انسانی اعضا کا ایک قبرستان تھا، کہیں پر ہاتھ تو کہیں پر پاؤں اور کسی جگہ سر پڑا تھا۔ اتنے میں میری نظر اس سرخ رنگ کے مائع پر پڑی جو ان 250 جسموں  سے نکلا تھا، جسے ایک ظالم نے بیچ بازار کے انسانوں کی  بربادی کے لئے چلا دیا تھا، میں یہ دیکھ رہا تھا کہ اس مائع کا رنگ سرخ ہے، بالکل اسی طرح سرخ ہے، جیسے ہمارے جسم میں دوڑنے والا یہ مائع جسے خون پکارتے ہیں، سرخ ہوتا ہے، جو جسم میں زندگی بن کے دوڑتا ہے، وہ جسم سے نکل چکا تھا اور اس کے نکلتے ہی زندگی سے عاری جسم بے سدھ پڑے تھے۔ کابل کی خون سے رنگین یہ سڑک جہاں عالمی استعمار سے میری نفرت میں اضافہ کر رہی تھی، وہی مذہب فروخت کرنے والوں کی منافقت سے بھی پردہ چاک کر رہی تھی۔

اور ہاں ناصرف خون سرخ تھا بلکہ ان بے جان جسموں پر نوحہ کناں لوگ بھی ہم سے ہی تھے۔ بڑی تیز رفتاری سے گاڑیوں سے اتر کر ہسپتال کی طرف دوڑتی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی  ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں جیسی ہی تھیں۔ یاد آیا کہ ان کے لبوں پہ جاری دعائیں بھی اسی خدا سے تھیں، جو ہمارا خدا ہے، وہ بار بار اسی آسماں کی طرف دیکھ رہی تھیں اور دھڑکتے دل سے اپنے پیاروں کو ایسے ہی تلاش کر رہی تھیں، جیسے اے پی ایس کی مائیں تلاش کر رہی تھیں۔ وہاں چند بیٹیاں بھی تھیں، وہی بیٹیاں جو باپ کے لئے باعث رحمت ہوتی  ہیں، وہ لرزتے قدموں اور مضبوطی سے پکڑے ڈوپٹوں کے ساتھ ہسپتال کی طرف آرہی تھیں۔ جب ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بتایا جاتا کہ تمہارا بیٹا، بھائی یا باپ اب نہیں رہا تو خدا کی قسم ان کی بلند ہوتی چیخیں اور ختم ہوتی امیدیں اور آنکھوں سے برستے آنسو بھی ہم سے تھے۔ کوئی کافر ہے، جو ان بیٹیوں کے نوحوں پر گریہ نہ کرے، کوئی وحشی ہے، جسے ماؤں کی چیخیں متاثر نہ کریں، کہاں ہیں قاتل، آئیں اور دیکھیں کہ انہوں نے کتنی امیدوں کو توڑا  ہے؟ کتنے ارمانوں کا خون کیا ہے؟ کتنے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔؟ کتنی بچیوں کو یتیم  اور کتنے والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا ہے؟ ہاں تم نے ہمیں قومی ریاستوں میں بانٹ دیا ہے، مگر نہ خون کے رنگ بدلے ہیں، نہ بہنوں کے آنسو مختلف ہیں، نہ ماؤں کی آہ و بکا  الگ ہے، سب ایک سا تو ہے، یہ درد مشترک ہے، جو مغربی مفادات کے لئے انسانی معاشرے کو دیا جا رہا ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں تو پڑھایا گیا تھا کہ ایک مسلمان خاتون کی فریاد پر محمد بن قاسم  حجاز سے ہندوستان آگیا تھا، مگر یہ کیا ہے؟ یہ سینکڑوں روتی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کیا مسلمان نہیں ہیں؟ یا وہ پکار کسی عرب عورت کی ہونی چاہیے؟ یا وہ ظلم کرنے والا غیر مسلم ہو تو اس کے خلاف غیرت جاگتی ہے؟ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ مجھے تو اللہ کے نبی ﷺ کا اسوہ یاد آرہا ہے کہ ایک لشکر جنگ پر روانہ کرتے ہیں، لشکر کی دشمن سے  جنگ ہوتی ہے، جنگ مسلمان جیت رہے ہوتے ہیں، شکست کھاتے لشکر کا ایک سپاہی جب  دیکھتا ہے کہ اب تلوار سر پر آچکی ہے تو  فوراً لا الہ اللہ پڑھ لیتا ہے، مسلمان اپنی اٹھی تلوار کو روکتا نہیں اور چلا دیتا ہے، وہ شخص قتل ہو جاتا ہے، یہ لشکر واپس مدینہ آتا ہے، آپؐ کو یہ واقعہ بتایا جاتا ہے، آپؐ پوچھتے ہیں، جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو تم نے اسے کیوں قتل کیا؟  صحابی عرض کرتے ہیں، یارسول اللہ اس نے خوف کی وجہ سے جان بچانے  کے لئے کلمہ پڑھا تھا، آپؐ فرماتے ہیں کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھ  لیا تھا؟ اور اس جملے کی اتنی تکرار کرتے ہیں کہ وہ صحابی کہتے ہیں، میں نے سوچا اے کاش میں آج کے دن مسلمان ہوا  ہوتا،یعنی مجھ سے یہ قتل نہ ہوتا۔ میں تو اس نبیؐ کی سیرت کو جانتا ہوں، جو جنگ میں بھی  بچوں اور خواتین کو قتل نہ کرنے کا حکم دیتے ہیں، مجھے تو وہ اسوہ حسنہ معلوم ہے، جس میں مکہ کے کافر جو آپؐ سے جنگیں کرچکے ہیں، بڑے سکون سے مدینہ آتے ہیں اور اپنے  معاملات انجام دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں مجھے تو اس کریم ؐ کی سیرت معلوم ہے، جب اسے پتہ چلا کہ قحط کے زمانہ میں مسلمان قبیلہ نے ان مشرکین کی گندم بند کر دی ہے، جو آپؐ کو ہجرت پر مجبور کرچکے  ہیں، آپ پر کئی جنگیں مسلط کرچکے ہیں، آپؐ کے چچا کا کلیجہ تک چبایا جا چکا ہے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ گندم دی جائے اور ایک رقم بھجواتے ہیں کہ مکہ کے غریب لوگوں کو اس سے گندم خرید کر دی جائے۔ اس کا اسوہ جو ایک قیدی خاتون کے لئے اپنی  چادر بچھا دے، جس سے دشمن بھی خیر کی امید رکھیں، ہاں ان کی سیرت تو یہی ہے، جانے یہ اسلام کہاں سے لے آئے ہیں، جس میں بین الاقوامی قوتوں کے لئے کرائے کے قاتل  کا کام کرتے ہیں اور اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کاش میری بات سنی جائے، افغانستان کی کسی سڑک پر قتل ہونے والے کلمہ گو مسلمان کا خون اتنا ہی محترم ہے، جتنا اسلام آباد میں کسی انسان کا ہے۔ پاکستان کے علمائے کرام نے بہت بڑا کام کیا کہ پاکستان میں ہر قسم کی دہشتگردی کو خلاف اسلام  قرار دیا۔ ان سے  دست بستہ عرض کروں گا کہ افغانستان کے مسلمان بھی اسی نبیؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں،  جس کا پاکستان کے لوگ پڑھتے ہیں، لہذا اس فتوے کو بارڈرز تک محدود نہ کریں، کیونکہ اسلام میں کسی مسئلہ کا حکم ایک محلے شہر یا ملک کے لئے نہیں بتایا جاتا، جہاں بھی وہ صورتحال ہوگی، اگر وہ حکم شرعی ہے تو وہاں جاری ہو جائے گا۔ افغانستان میں بسنے والے انسان بھی امن چاہتے ہیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے خوشی سے رہیں، انہیں کوئی تکلیف نہ ہو، اس لئے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور ان اسلام دشمن قوتوں سے ان کی جان چھڑائیں، جو اسلام کے نام پر ایک اسلامی ملک کا امن غارت کئے  ہوئے ہیں۔ بقول اقبال
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے 

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply