اک واری فیر ۔۔۔ شیر ! ۔۔۔۔ اذان ملک

  • کون کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آزاد اور خود مختار نہیں؟ اس قومی ادارے کی آزادی کی تازہ خبر ملاحظہ فرمائیے کہ کمیشن نے پاکستان کی حکمران جماعت کو انتخابی نشان الاٹ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وجہ اس انکار کی یہ ہوئی کہ کمیشن کے قواعدوضوابط کے مطابق ہر سیاسی جماعت دیگر امور کے علاوہ اپنی پارٹی کے اندر عہدیداروں کے انتخابات کے نتائج پیش کرنے کی پابند ہے۔ پارٹی کے اندر الیکشن کیسے ہوا، الیکشن کس کی نگرانی میں ہوا، اور کون لوگ عہدوں پر منتخب کئے گئے؟ الیکشن کمیشن کے اس انکار کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ضمنی الیکشن بہت قریب ہوتا تو ن لیگ کے امیدوار کو ’شیر‘ کے نشان سے محروم رہنا پڑتا۔ اگرچہ حکومتی پارٹی کے امیدوار کی شکست کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں مگر خیریت یوں بھی گزری کہ کوئی ضمنی الیکشن قریب بھی نہ تھا۔

    الیکشن کمیشن کے یوں کباب میں ہڈی بننے کے بعد پارٹی قیادت اور قریبی مشیروں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی میں الیکشن کروا ہی لئے جائیں۔ ویسے تو یہ اپنی جمہوریت کا المیہ ہے، مگر دل کے خوش رکھنے کو اگر اسے جمہوریت کا حُسن بھی قرار دے لیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ پاکستان میں جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تو ستم ظریفی کی انتہا اس وقت بھی ہو جاتی ہے، جب فوجی حکمران بھی خود کو جمہوریت کے چمپیئن قرار دینے پر مُصر ہوتے ہیں۔

    پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کو دیکھ لیں، پارٹی اپنے رہنماؤں کی ذاتی جاگیر یا وراثتی جائیداد سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ حکومتی پارٹی ایک شخص کے نام پر ہے، گویا وہ اس کا مالک ہے۔ پی پی کو دیکھ لیں، وراثت کی طرح ایک ہی خاندان میں تقسیم ہورہی ہے، پہلے وراثت بیٹی کو منتقل ہوئی، پھر معاملہ داماد کے ہاتھ میں چلا گیا اور اب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نواسے کی ذات ہی تبدیل کردی گئی۔ تاہم پارٹی کا اندرونی معاملہ جانتے ہوئے اسے سب نے قبول کرلیا۔  مالکوں کی مرضی وہ اپنا جو بھی نام رکھیں۔

    پی ٹی آئی میں پارٹی کے بانی ہی پارٹی کے سربراہ ہیں، مگر ان کے بغیر نہ پارٹی کی پوزیشن دکھائی دیتی ہے ، نہ اس میں کسی کی دلچسپی، اور نہ ہی ان کے ہوتے کسی اور کی مجال ہے کہ وہ چیئرمین بن کر دکھائے۔ اے این پی، جے یوآئی اور دیگر جماعتوں کا بھی یہی عالم ہے۔

    ایم کیوایم کی بھی چند روز قبل تک یہی کہانی تھی۔ اب بھی یار لوگوں کو یقین نہیں آرہا کہ پارٹی سے اس کے بانی کا نام مائینس کردیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی ہی ایک پارٹی بچتی ہے، جس کے اندر حقیقی جمہوریت ہے، یہ تلخ حقیقت مخالفین کو بھی تسلیم کرنا پڑتی ہے۔

    حکومتی پارٹی کا تو کیا ہی کہنا کہ جس کا نام بھی ایک شخصیت کے نام پر ہے، گویا مسلم لیگ ن کی اگر ’’ن‘‘ ختم کردی جائے تو پارٹی کا وجود ہی نہیں رہتا۔ اگر مسلم لیگ ’ن‘ ہے تو پھر اس میں الیکشن کا کیا کام؟ اور اگر الیکشن کمیشن کے کہنے پر پارٹی میں الیکشن ہو بھی جائیں گے تو وہ محض کاغذی کارروائی ہوگی۔ کمیشن کی بلا سے کاغذی کارروائی ہو، یا حقیقی ، بس رپورٹ ہونی چاہیے، مجبوراً پارٹی نے رپورٹ تیار کرنے کا بندوبست شروع کردیا ہے، چندروز بعد ہی عاملہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے، جس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈالی گئی ’پھٹیِک‘ سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ تقریریں ہونگی، تھوڑی بہت سنی جائیں گی، زیادہ تر کہی جائیں گی، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے طریقے زیر بحث لائے جائیں گے، الیکشن کی تاریخ مقرر ہو جائے گی، اور قوم کے سامنے یہ بڑی خبر بھی جلد ہی آجائے گی کہ جناب میاں محمد نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی بہت ہی شفاف الیکشن کے نتیجہ میں جناب میاں محمد شہباز شریف صوبائی صدر منتخب ہوں گے۔ بعد ازاں مبارکبادوں کے پیغامات ہونگے، خوشی اور شادمانی کی لہر پوری پارٹی میں دوڑ جائے گی اور قانونی ماہرین کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پیش کردی جائے گی، جس کے بعد وہ پارٹی مذکور کو شیر کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا پابند ہو جائے گا۔

    Advertisements
    julia rana solicitors london

    اسی قسم کے پارٹی الیکشن کی وجہ سے ہی کسی پارٹی عہدیدار کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اپنے قائد کے بارے میں ایک جملہ بھی ادا کرسکے اور اسی لئے اس قسم کے قائدین ملک کو بھی اپنی پارٹی کی طرح چلانے کے عادی ہیں۔

     

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply