عمران، پھٹیچر اور صحافتی بددیانتی

پھٹیچر ایشو کی بابت ابھی پتہ چلا ہے کہ یہ دراصل آف دی ریکارڈ گفتگو تھی جسے کچھ صحافیوں نے بریکنگ نیوز کے چکر میں نشر کرکے قومی جگ ہنسائی میں اپنا کردار بہ احسن و خوبی ادا کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب آف دی ریکارڈ یا کھلی ڈلی مجالس میں بہت کچھ بولتے ہیں ، خود میں بھی یہی کرتا ہوں لیکن جب ایسی مجلس میں ہی سہی عمران خان نے نامعقول بات کہہ دی تھی تو صحافیوں کو کم از کم قومی وقار کا خیال کرنا چاھیۓ تھا۔ پہلے وہ بات بمشکل دس افراد یا کمرے تک محدود تھی، لیکن شاندار رپورٹنگ کے نتیجے میں چہار سو اسکا شہرہ ہے ۔ ہمیں آخر کب سمجھ آئے گی کہ آن ریکارڈ یا آف ریکارڈ گفتگو میں فرق ہوتا ہے ؟
اگر رپورٹنگ کا ایسا معیار رکھنا ہے تو ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کو کھل کر بتلائیں کہ ہم آپ کالے سے کم پہ مخاطب ہی نہیں کرتے اور کالو دیوانے بولنگ نہ جانے جیسے گانے گا گا کر آپکی عزت اتارتے رہے ہیں ، فرق سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہر چیز نشر کرنے کی نہیں ہوتی ۔
یہی وہ حرکتیں ہیں جسکی وجہ سے ہماری برادری کی عزت روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور عوام الناس ہمیں فتنہ و شر پھیلانے والا سمجھتے ہیں ۔
ہمیں اپنے رویوں اور تربیت پہ توجہ دینا ہوگی ورنہ وہ دن دور نہیں کہ لوگ ہمیں دیکھ کر دور ہی سے پتھر مارا کریں گے ۔
جرائم کی تمثیل کاری کرنے والے اینکرز کا انداز ویسے بھی بیک وقت جج تفتیشی افسر اور بدمعاشی کا ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک خاتون اینکر تھانے میں بند خاتون ملزمہ کی پٹائی کر رہی ہوتی ہیں ، اسی طرح ایف سی اہلکار سے زبردستی بات کرنے کے نتیجے میں ایک اور خاتون اینکر کیساتھ جو افسوسناک واقعہ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔
صحافت کااصول سیدھا سا ہے اگر کوئی شخص آپ سے متعلقہ موضوع پہ بات کرنے سے گریزاں ہے تو زبردستی اسکے منہ میں مائیک گھسانے کے بجائے آپ اپنے ناظرین کو فقط یہ بتائیں گے کہ ہم نے ان صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔
اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ میڈیا عوامی دلچسپی یا مسائل کو نمایاں کرتا رہا جسکی وجہ سے بہتری کے آثار بھی نمایاں ہیں اور بدعنوان افسران کو خوف بھی لاحق ہوا ہے لیکن اسکے باوجود ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہر معاملے میں مغرب کی نقالی کی کوشش کرنے والے میڈیا میں انکے سنسنی اور چیخ و پکار کے بغیر خبریں دینے کے انداز کو نہیں اپناتے ۔
گزشتہ روز کا المناک واقعہ یہ تھا کہ ہم نے جسٹس سجاد علی شاہ کو مار دیا ، انتقال پُر ملال انکا آج ہوا ۔

Facebook Comments

فیض اللہ خان
ایک عملی صحافی جو صحافت کو عبادت سمجھ کر کرتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply