سیک سیمینار

ثاقب ملک کو سلام کہ انھوں نے گزشتہ شب سوشل میڈیا کے بڑے ناموں کو ایک پلیٹ فارم (سیک سمینار) پر اکٹھا کیا… اس محفل (سیک سیمینار) میں بڑے بڑے لکھنے والے نام جیسے شکیل عادل زادہ صاحب، عامر خاکوانی صاحب، فیض اللہ خان صاحب، اعجاز منگی، خرّم سہیل، جمیل خان، اقبال خورشید اور مبشر علی زیدی جیسے لوگ شامل تھے… محفل پی سی ہوٹل کراچی میں سجائی گئی… مختلف سیشنز ہوۓ لیکن زیادہ تر بات کراچی کے حالات اور ان میں بہتری کیسے لائی جائے پر کی گئی۔

اسرار احمد صاحب نے تلاوتِ قرآنِ پاک سے محفل کا آغاز کیا. پھر ڈاکٹر اسحاق عالم نے آئمہ مساجد کے مثبت اثرات پر گفتگو کی. اقبال خورشید صاحب نے معشیت اردو اور ادیبوں کے مسائل پر بات کی. اعظم معراج صاحب نے مسیحی برادری کو در پیش مسائل پر بہترین گفتگو کی.

سیمینار میں تین عدد کتابوں پر بات ہوئی. سب کے پسندیدہ اور نہایت محترم عامر خاکوانی کے کالمز پر مشتمل کتاب زنگار پر بات ہوئی۔ بےباک اور اپنی منفرد پرسنالٹی اور بالوں کی وجہ سے عوام میں مقبول فیض اللہ خان صاحب کی کتاب ڈیورنڈ لائن کا قیدی پر نظر ڈالی گئی. جمیل خان صاحب کی ظلمتِ شب پر بھی بات ہوئی. خوشی کی بات یہ کہ ہال سے نکلتے ہوۓ اندازہ ہوا کہ ہر کسی نے ان کتب میں سے کوئی نہ کوئی ایک کتاب تو خریدی ہی تھی۔

عمار یاسر زیدی صاحب نے ایم کیو ایم کے کراچی میں کردار پر روشنی ڈالی. شکیل عادل زادہ صاحب کا وہاں موجود ہونا ہی بے حد مسحور کن تھا لیکن جب وہ سٹیج پہ آئے اور اردو زبان پر گفتگو کرنا شروع کی تو انھیں دیر تک سنتے رہنے کی تمنا ہر کسی کے دل میں تھی. وہ اردو زبان کے حوالے سے حساس نظر آۓ اور کچھ مایوس بھی. ہال میں بیٹھے سبھی لوگوں نے ان سے دوبارہ لکھنے کی طرف آنے کی درخواست کی. مبشر علی زیدی صاحب کی تقریر جس کا موضوع میڈیا میں حق گوئی اور اس کو درپیش مسائل تھا، شاندار رہی… انھوں نے بتایا کہ کیسے آج کے دور میں صحافی کو کسی بھی قسم کی اپنی مرضی کی خبر بنانے یا چلانے کی اجازت نہیں. اعجاز منگی صاحب نے کیمونزم اور سوشل میڈیا پر تقریر کی اور خوب پذیرائی حاصل کی… انھوں نے جب یہ کہا کہ
جس طرح قرآن کا مطالعہ کیے بغیر اسلام کو غلط نہیں کہا جا سکتا اسی طرح کسی مولوی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ داس کیپیٹل پڑھے بغیر کیمونزم کو غلط کہے۔
تو بڑے چھوٹے سب سے داد وصول پائی.

مکالمہ کے ایڈیٹر حافظ صفوان بھی سیک سیمینار کا حصّہ بنے اور انھوں نے کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی سیکورٹی پر بہترین گفتگو کی. انھوں نے پہلے یہ بتایا کہ آئی ٹی سیکیورٹی آخر نام کس بلا کا ہے اور پھر یہ بھی بتایا کہ کون سا سوشل میڈیا میڈیم سب سے زیادہ محفوظ ہے یا کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ گروپس کسی طرح بھی محفوظ نہیں لیکن آج اہم سے اہم کاروباری بات بھی وہاں شئیر کی جاتی ہے.

اپنے ٹیکنیکل موضوع پر گفتگو کے آخر میں انھوں نے مکالمہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مکالمہ میں شائع ہونے والی ان تحریروں کا ذکر کیا جو مختلف نوعیت کی حامی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ کیسے پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں ہونے کے حق میں ہم نےتحریریں لکھیں اور شائع کیں. ان نے یہ بھی بتایا کہ ایک پنجابی ہونے کی حیثیت سے پختون برادری پر دہشت گردی کے الزام پر ہم نے کیسے متحد ہوکر سوشل میڈیا کی سوچ بدلنے پر کام کیا. فاٹا اصطلاحات کے حق میں سب سے زیادہ مکالمہ پر لکھا اور شائع کیا گیا. ہمارے دوست شاہد شاہ خود بنگالی ہیں اور پاکستان میں اپنی اور باقی بنگالیوں کی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں. ان کی اس جنگ میں مکالمہ ان کے ساتھ رہا. آخر میں انھوں نے مجھ ناچیز کے لکھے مضمون ہمارے محافظ کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ تعریف کی کہ ایک منفرد سوچ پر لکھا اور اسے پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے.

ثاقب مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے مختلف سوچ کے حامی افراد کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا. اس قسم کی محفلوں میں کوئی نہ کوئی کمی تو رہ جاتی ہے لیکن اس قدر محنت اور جنون سے کام کرنے پر ثاقب کو سلام… کاش اس محفل میں کراچی کے باسی زیادہ تعداد میں شرکت کرتے تو یہ سیمینار مزید کامیاب ہو پاتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ثاقب! کھانا لذیذ تھا اور کتابوں کا سٹال اس سے زیادہ لذیذ… تمھارا اس لیے بھی شکریہ ادا کرنا بنتا ہے کہ پی سی ہوٹل کراچی جیسی جگہ اس سیمینار کے لیے منتخب کی جہاں مرد و زن خوبصورت غیر ملکی چہروں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے… آئندہ بھی ایسے سیمینار منعقد کرواتے رہو… کراچی کے رہنے والوں کو اس کی ضرورت ہے…

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply