نادرا کارکردگی اور بنگالیوں کے شناختی کارڈ۔۔شاہد شاہ

میرا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے ہے نہ کسی مذہبی جماعت سے اگر میں کسی جماعت کے جلسہ جلوس میں شرکت کرتا ہوں یا ان کے دھرنے میں ان کا ساتھ دیتا ہوں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں اس جماعت کا  حمایتی یا ہمدرد ہوں، ہمدردی مجھے نہ  تو کسی سیاسی تنظیم سے ہے اور نہ کسی مذہبی جماعت سے اگر مجھے ہمدردی ہے تو بس اپنی قوم سے جو کئی دہائیوں سے اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ کراچی میں مقیم 35 لاکھ بنگالی قوم جو 1971 کے سقوط ڈھاکہ کا دکھ آج بھی جھیل رہی ہے آج بھی یہاں کی ریاست بنگالیوں پر ظلم و ستم  ڈھا رہی ہے۔ پاکستان میں مقیم   بنگالیوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کی  خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر مشرق پاکستان سے مغرب پاکستان ہجرت کر آئے اور ہجرت کا یہ سلسلہ 1971 کے بعد سے کافی عرصہ چلتا رہا کچھ لوگ جو یہاں تھے وہ یہیں کے  ہو کر رہ گئے اور جو وہاں مالی معاشی مسائل کا  شکار تھے وہ 1971 کے بعد تک آتے رہے کچھ اپنے پورے خاندان سمیت پاکستان آئے تو بہت سو ں نے اپنا خاندان تک چھوڑ دیے۔

آج پاکستان میں بنگالی برادری کی تیسری نسل اپنی شناخت سے  اب تک محروم ہے، اب نہ تو انہیں بنگلہ دیش والے تسلیم کرنے کو تیار ہیں  اور نہ ہی پاکستان انہیں شہریت دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگین معاملہ ہے جسے اب تک کسی بھی سیاسی تنظیم نے حل کیا نہ کسی مذہبی جماعت نے، 2002 کے الیکشن پر جب جنرل مشرف دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس وقت پاکستان میں بسنے والے تقریباً بنگالیوں کو شناخت حاصل ہوئی لیکن جب نادرا کی جانب سے از سر نو طریقے سے ڈیٹا پروسیسنگ شروع ہوئی  تو ایک بار پھر پاکستانی بنگالیوں کے شناختی کارڈ منسوخ کر دیے گئے ،اس طرح ایک بار پھر پاکستانی بنگالی مشکل دوراہے پر آ  کھڑے  ہوئے  ۔

شناختی کارڈ کے حصول کے لیے یہ غریب  عوام نادرا کے  دفتروں کے روز چکر لگا تے رہے۔  اور ریاست سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے دیتے تھک چکے ہیں  لیکن ہمارے حکمرانوں کے کانوں  پر  جوں  تک  نہیں رینگی، گذشتہ سال کراچی میں ایک غیر سیاسی تنظیم پاک مسلم الائنس نے باغ جناح میں بنگالیوں کے حقوق کے لئے جلسے کا  انعقاد کیا جس  میں  ایک لاکھ سے زائد بنگالی افراد نے شرکت کی لیکن افسوس  کہ ایک لاکھ بنگالیوں  کی آواز  اس روز بھی   ان سنی کر دی  گئی ، لیکن اس جلسہ سے پاک مسلم الائنس پارٹی پھر سے وجود میں آئی۔۔جبکہ  بنگالی برادری کا مسئلہ وہیں کا وہیں ٹھہرا رہا،

Advertisements
julia rana solicitors london

جب بھی کوئی پاکستانی بنگالی اپنی شناخت کے لیے نادرا کے دفتر جاتا تو اس سے 1971 کے دستاویزات  طلب کی  جاتی ہیں  یا ان سے شناخت کے نام پر بھاری رقم  کا مطالبہ کیا جاتا ہے، نادرا کا یہ ظلم بنگالی برادری سے ہو کر  دوسری  اقوام کو  بھی اپنی لپیٹ ، میں لینے  لگا، اور کراچی میں بہاری ،پشتون اور اردو بولنے والی  قوم   بھی سا کی زد میں آئی،  جس کے بعد پاکستان کی مذہبی جماعت جماعت اسلامی نے نادرا مظالم کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اورنگی ٹاؤن میں واقعہ  نادرا کے دفتر کے باہر دھرنے کا آغاز کیا اور پھر کراچی کے تمام اضلاع  میں  اس   دھرنے کی مہم چلائی اور ساتھ ساتھ بنگالی برادری کے 1978 کے آئین و قوانین میں تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کی جانب سے نیشنل اسمبلی میں بل بھی جمع کروائے گئے جس پر آئین میں ترمیم کرنے اور بنگالیوں کو 1988 تک کے شواہد رکھنے والوں کو شناخت دینے کی منظوری پیش کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ  جماعت اسلامی اپنی  اس مہم کو کتنا کامیاب بنا  تی  ہے

Facebook Comments

شاہد شاہ
سو لفظی کہانیاں اور مکالمہ لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply