خان صاحب ! اپنا دشمن بدلیں۔۔ذیشان نور خلجی

ہمارے ہمسائے میں ایک صاحب رہتے ہیں۔ ساری زندگی انہوں نے کچھ نہیں کیا لیکن انتخابات میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور الحمد للہ تسلی سے ہارتے ہیں۔ الیکشن چاہے بلدیاتی ہوں یا جنرل، وہ ایک پکے ٹھکے امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مجھے بڑا تجسس تھا کہ ان کو اندازہ بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے ہار جانا ہے پھر بھی جانے کیوں یہ ہر بار انتخابات میں کود پڑتے ہیں۔ کیوں کہ سوائے ایک آدھ دفعہ کے وہ کبھی سیٹ حاصل نہیں کر سکے اور وہ بھی کوئی لیبر کونسلر کی نشست تھی۔

سو 2013ء کے جنرل الیکشن میں جب وہ ایک دفعہ پھر میدان میں کود پڑے تو میں نے ازراہ ہمدردی استفسار کیا اجی ! آپ کیوں پھر سے الیکشن میں ٹپک پڑے ہیں؟ واضح رہے ابھی الیکشن کو ایک مہینہ باقی تھا اور اس کے علاوہ نہ تو ان کے پاس کسی پارٹی کا ٹکٹ تھا نہ ہی کوئی ذاتی ووٹ بنک تھا بلکہ کوئی برادری ورادری کا چکر بھی نہیں تھا۔ کہنے لگے میں میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے اترا ہوں پھر بے شک میں ہار بھی جاؤں، میرا نام تو سورماؤں کی فہرست میں آئے گا نا۔ ” سابق امیدوار برائے صوبائی اسمبلی” اور لوگ جان جائیں گے کہ حلقے کی سیاست میں بڑے بڑے پہلوانوں میں ایک میں بھی شامل ہوں۔ میں سمجھ گیا الیکشن میں ہارنا کچھ لوگوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہو سکتا ہے لیکن سب کے لئے نہیں۔ بلکہ ان جیسے لوگ الیکشن میں ہارنے کو بھی اپنی عزت افزائی سمجھ بیٹھے ہیں۔ واقعی عقل کون سا مفت ملتی ہے۔

یہی کچھ حال خان صاحب کا ہے کشمیر کاز پہ وہ ایسے ایسے تیر ہوا میں چھوڑ رہے ہیں کہ شہیدوں کی فہرست میں تو نام درج ہو گا یا نہیں، لیکن شہدوں کی لسٹ میں ضرور درج ہو سکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے یوم استحصال کشمیر کے موقع پر نقشے کی صورت میں جو شوشہ چھوڑا گیا وہ ہم بچپن سے درسی کتابوں میں دیکھتے چلے آ رہے ہیں تو پھر اس میں نیا کیا تھا؟ آخر وہ کون سی نئی بات ہے جس کی مشہوری کے لئے سالم تانگہ کروا کر اس میں بینر لگا کر پورے پنڈ میں ڈھول پیٹا گیا کہ جی ہم نے معرکہ سر کر لیا ہے؟

ہم فرض کرتے ہیں کہ نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو شامل کرنے کا معرکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ خان صاحب کے مبارک ہاتھوں سے ہی انجام پایا ہے۔ لیکن پھر بھی پورا سال گزر چکنے کے بعد کیا یہی ایک دن بچا تھا اس کاغذی کاروائی کے لئے؟ ایک سال ہونے کو آیا ہے کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے، اور کیا ہم صرف کاغذوں پر لکیریں کھینچتے رہیں گے؟ خان صاحب یہ وہ وقت تھا کہ آپ بھارت کو ایسا پیغام دیتے کہ تاریخ آپ کو محسن کشمیر کے نام سے یاد کرتی۔ اس ضمن میں آپ کو کسی وزیر مشیر سے مشورہ لینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ آپ صرف بھارتی وزیراعظم مودی سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔

5 اگست جو کہ کشمیر کے حوالے سے مخصوص تھا اس دن مودی نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ کے ہمیں ایک ایسا پیغام دیا ہے جو رہتی دنیا تک ہمیں یاد رہے گا۔ تین دہائیوں سے بابری مسجد مسلمانان انڈ و پاک کے لئے دکھتی رگ بنی ہوئی تھی اور اس موذی انسان نے ٹھیک کشمیر ڈے کے موقع پر وہاں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ کے ہمارے جذبات پر نہ صرف کاری وار کیا ہے بلکہ ہر دو طرف سے ہمارے زخموں پر نمک بھی چھڑکا ہے کہ یہ دیکھو کشمیر کرفیو کو بھی ایک سال ہو چکا ہے اور ہم نے تمھارے سینے پر مونگ دلنے کے لئے رام مندر کی صورت میں چکی بھی لگا لی ہے۔ اور اس نے عملاً یہ پیغام دیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایذا پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔

تو خان صاحب یہ بہت نازک وقت ہے خدارا کشمیر کے معاملے میں سیریس ہو جائیں اور عملاً کچھ اقدامات کریں۔ زبانی کلامی دعووں سے آپ سوشل میڈیا پہ تو کسی کو چور اور کرپٹ ثابت کر سکتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ مزاج ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اپنی طبیعت کے باعث اگر آپ کا ایسا کچھ کرنے کا موڈ نہیں ہے اور آپ خیالی باتوں سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں تو پھر براہ مہربانی اپنا دشمن بدل لیں جو آپ ہی کی طرح ہومیو پیتھک ہو اور صرف بڑھکوں کی حد تک محدود رہے۔ کبھی وہ جو بیان بازی کرے تو آپ اپنے ساتھ پوری قوم کو چپ کا روزہ رکھوا لیں۔کبھی آپ اس کے خلاف کچھ بولیں تو وہ کاغذ پینسل لے کر ڈرائنگ شروع کر دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply