میں نے جب عملی صحافت میں قدم رکھا تو مجھے علم ہوا کہ مجھے کتابوں میں جو کچھ بتایا اور پڑھایا جاتا تھا حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ہمیں پڑھایا جاتا رہا کہ اچھا صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے مگر میں نے عملی زندگی میں آ کے دیکھا کہ اچھا صحافی تو ہمیشہ اچھائی اور بھلائی کے ساتھ پوری طرح دھڑے باز ہوتا ہے، وہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی جانبداری کرتا ہے، وہ جھوٹ اور کرپشن کا ڈٹ کے مقابلہ کرتا ہے، وہ انسانیت کا دوست ہوتا ہے، دکھی لوگوں کے آنسو پونچھتا ہے، صحافت کوکاروبار کہتے ہوئے لوگوں کے گلے اور جیبیں کاٹنے کے لئے استعمال نہیں کرتا، وہ اسے مرہم بناتا ہے ، وہ اختلاف رکھتا ہے مگر گالی نہیں دیتا ، اختلاف پر بددعا نہیں دیتا، راستے کھولتا ہے بند نہیں کرتااور میں نے بہت ہی قابل احترام منیر احمد قریشی المعروف منوبھائی سے بھی کچھ ایسا ہی سیکھاہے اور کوشش ہے کہ اس پر عمل بھی کر سکوں۔
میں اپنے بہت سارے دوستوں کی طرح یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ میرا منو بھائی سے بہت ہی گہرا تعلق تھا، میرا پروفیشنل تعلق توبہت سوں سے ہے مگر ان سے ذاتی تعلق سندس فاؤنڈیشن کے حوالے سے بنا جب انہوں نے مجھے تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا جیسے امراض سے لڑنے والے ادارے میں باقاعدگی سے دعوت دینا شروع کی، ان کا محبت بھرا فون موصول ہوتا اور میں حاضر ہوجاتا۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اچھے لوگوں سے تعلق رکھنا ایک نشے کی طرح ہے، اس کا سواد ہی کچھ اورہے۔ منو بھائی کے انسانی حقوق کے بارے میں خیالات بہت تناور تھے اور ان میں عوامی حاکمیت بہت ہی بنیادی اور ضروری حق ہے۔ وہ اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے مگر بے جا بحث بھی نہیں کرتے تھے۔ میں منو بھائی کی محترم شخصیت کو یاد کرتا ہوں تو سبق سیکھتا ہوں کہ اچھے صحافی کی زبان نہیں بلکہ قلم کو بولنا چاہیے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی جج کے بیانات نہیں فیصلے بولنے چاہئیں مگر افسوس ہم سب اپنے اچھے لوگوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔
منو بھائی سے میں نے یہ بھی سیکھا کہ آپ جن کے نظریات اور اقدامات سے اتفاق نہیں کرتے، ان سے تعلق اور ان کا احترام بھی ضروری ہے۔ کسی نے کہا کہ منو بھائی پیپلزپارٹی کے حامی تھے تو ان کے جنازے پر قمر الزماں کائرہ کے ساتھ ساتھ جماعۃ الدعوۃ والے کیا کررہے تھے، خواجہ سلمان رفیق انہیں خراج عقیدت کیوں پیش کر رہے تھے۔ میں نے منو بھائی کو کٹر جمہوریت پسند ہونے کے باوجود پروفیسر حافظ محمد سعید کی ہر بریفنگ میں دیکھا ہے،منو بھائی تو ریڈیواور ٹیلی وژن کے آدمی تھے، وہ خود کلین شیو تھے، معتدل مزاج تھے لہذا انہیں تو بڑی بڑی داڑھیوں والے انتہا پسندوں سے الرجک ہونا چاہیے تھا۔پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب مجاہد کامران نے کہا، انہوں نے منوبھائی کے سوا کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں دیکھا جس سے کسی کو کوئی شکایت نہ ہو، یہ ان کی ایک حیرت انگیز خوبی رہی ۔
میں نے کہا، منو بھائی کے ساتھ ہی تہذیب کی حامل صحافت کا ایک عہد ختم ہو گیا اور یہ نقصا ن اس وقت ہوا ہے جب آزادصحافت کے نام پرہر طرف بک بک اور بڑ بڑ جاری ہے۔ تاثر بنا دیا گیا ہے کہ جو جتنا زیادہ بدتمیز ہے وہ اتنا ہی بڑا صحافی ہے مگر منوبھائی نے اس عوامی تصور کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ فیس بک پیج پرلائیکس اور ٹوئیٹر کے ہینڈلرپر فالوورز یہ ہرگز ثابت نہیں کرتے کہ آپ ایک بڑے صحافی ، سیاستدان یا انسان ہیں۔ آپ کی بڑائی کاثبوت آپ کا کرداراور اصول ہیں۔صحافت اخبار سے نکل کر ٹی وی میں اوراس کے ذریعے گھر گھر پہنچ گئی ہے۔ اب بڑے وہ صحافی کہلاتے ہیں جس قسم کے مردوں اور عورتوں کو کبھی پھپھے کٹنیوں کے طور پر کرائے پر حاصل کیا جاتا تھا۔منو بھائی ان سب سے بہت مختلف تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں سب سے مختلف خراج عقیدت بھی پیش کیا جارہا ہے۔
منو بھائی کو ان بچوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جنہیں خون کے امراض لاحق ہیں اور اگر ان کا خون ہر پندرہ ، بیس دن میں لازمی طور پر نہ بدلا جائے تو وہ مر سکتے ہیں،زندگی دینا خدائی صفت ہے،منو بھائی ان بہت سارے بچوں کی زندگی کے لئے اس عمر میں بھی کام کر رہے تھے مگر میں ان کا ذکر ایک صحافی کے طور پر ہی کرنا چاہتا ہوں اور اسی بات کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے اور میرے ساتھی کارکنوں کے لئے بہت اہم ہے، جی ہاں، ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ ایک اچھا صحافی غیر جانبدارہوتا ہے مگر میں نے تاریخ کے صفحات کو اٹھا کے دیکھا ہے کہ ہر بڑا صحافی کسی نہ کسی نظرئیے اور کسی نہ کسی اچھائی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، افسوس، یہاں غیر جانبداری عملی طور پرمنافقت اور مفاد پرستی کی دوسری شکل بن چکی ہے۔ غیر جانبداری ہر کسی کو گالی دینے، خود کو فرشتہ ثابت کرنے یا ہر حکومت کی گود میں جا کے بیٹھ جانے کا نام ہے۔ کوئی یہ کہے کہ دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں تو غیر جانبداری یہ نہیں کہ اسے بعینہ رپورٹ کر دیا جائے بلکہ غیر جانبداری تو بتایا جانا ہے کہ یہ غلط ہے، یہ گمراہ کیا جا رہا ہے، حساب کے ماہرین کے مطابق دو جمع دوچار ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے دو جمع دو پانچ کے بیان کو غلط قرار دے کرجانبداری کا مظاہرہ کیا ہے تو ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔غیر جانبداری کی ٹیکسٹ بک اپروچ صرف اسی حد تک قابل قبول ہے کہ ہمیں ہر کسی کے ظلم کو ظلم اور ہرکسی کی برائی کو برائی کہنا ہے، ہم نے افراد کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنا ہے مگر اصولوں اور نظریات کی دھڑا بندی میں نہیں۔
منو بھائی اپنے اصولوں اور نظریات میں آئین، قانون، انسانی حقوق اور عوامی حاکمیت کے ساتھ دھڑے باز تھے اور مجھے بھی اس غیر جانبداری سے توبہ کرنی ہے جو خوابوں اورآدرشوں کی قربانی مانگتی ہے، جو جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی ہم نوا بن جاتی ہے، جو عقل اور منطق کی نفی کرتی ہے، جو تاریخ کے مطالعے اور حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے ، جوآئین، قانون، جمہوریت اور انسانی حقوق کو مستردکرتی ہے۔ اچھا صحافی ظالم کی طرف سے بندوق ، چھڑی ، جوتوں اور گالیوں کے استعمال کو مظلوم کے ساتھ اس کا باہمی معاملہ قرار نہیں دیتا،صحافی کبھی بندوق، چھڑی، جوتوں اور گالیوں کا استعمال نہیں کرتا مگر وہ بزدل، بے شرم اور موقع پرست بھی نہیں ہوتا۔ وہ غیر جا نبداری کی بنیاد پر صحافت کوکاروبار میں تبدیل نہیں کرتا،وہ طے شدہ اصولوں او ر معاملات میں دھوکا دہی کے لئے فکری مغالطوں کا سہارا نہیں لیتا، ہر اچھا ، بڑااور کامیاب صحافی حق کا ساتھ دیتا ہے، دلیل کے ساتھ، تہذیب کے ساتھ، اپنے قلم کے ساتھ۔میرا یقین ہے کہ جب تک دل، ضمیر ، اصول اور کردار والے صحافی موجود رہیں گے، منو بھائی ندہ رہیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں