خواتین اور ڈرائیونگ

آج صبح اسلام آباد کا موسم انتہائی خوشگوار تھا۔سرد ہوا اور ہلکی بارش سے جاتی سردی جیسے ایک دم سےواپس لوٹ آئی ہو۔۔میں اسلام آباد ایک دیرینہ دوست کے اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا تھا۔صبح صبح اپارٹمنٹ سے نکل کر باہر اپنی گاڑی کی طرف آیا تو ایک آنٹی سے تکرار ہو گئی (لکھنا تو میں منہ ماری چاہ رہا ہوں لیکن تکرار ہی ٹھیک ہے)رہائشی فلیٹس میں الگ سے پارکنگ نہ ہونے کے باعث لوگوں نے بلڈنگ کی چاردیواری کے ساتھ خود ہی اپنی اپنی گاڑیوں کے لیئے گیراج بنا رکھے ہیں،میں گاڑی کے پاس پہنچا تو ایک آنٹی جنہوں نے اپنی گاڑی میری گاڑی کے برابر کھڑی کرکے باقی گاڑیوں کا راستہ روک رکھا تھا،مجھے کہنے لگیں کہ بیٹا آپ اپنی گاڑی گیٹ کے سامنے کیوں کھڑی کرتے ہیں؟مجھے گاڑی نکالنے میں بہت پریشانی ہوتی ہے،میں اِس اچانک سوال کیلئے تیار نہیں تھا سو ایک دم کہا کہ کونسی گاڑی اور کونسا گیٹ؟ کہنے لگیں کہ آپ کی گاڑی اور میرے گیراج کا گیٹ اور پھر اپنے گیراج کا گیٹ بند کرنے لگیں۔میں نے اپنی گاڑی اور اُن کے گیراج میں فاصلے کا اندازہ لگایا جو کم از کم اٹھارہ بیس فُٹ تھا۔۔میں نے کہا کہ آنٹی میری گاڑی اور اپنے گیراج کے درمیان فاصلہ دیکھیے،میری گاڑی ہرگز آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن وہ بضد تھیں اور وہ بھی انگریزی میں کہ غلطی میری ہے۔میں نے ایک بار پھر وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن ایک بار پھر جیسے وہ مجھ پہ چڑھ دوڑیں۔جی چاہا ان کہ اُن سے کہوں کہ آنٹی گاڑی چلانا سیکھ لیں،مجھے تو الزام مت دیں لیکن کیوں کہ وہ خاموشی گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں سو میں نے بھی خاموش رہنے میں عافیت جانی۔۔لیکن ایسا اکثر ہوتا ہے کہ خواتین ڈرائیورز اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کرتیں اور سارا قصور دوسرے لوگوں پہ ڈالنے پر کمر بستہ رہتی ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ آج ہی ایک اور واقعہ پیش آیا۔۔ایک تنگ راستے پرسامنے ایک لمبی سی کار والے صاحب گاڑی ریورس کر کے ایک گلی میں لیجاناچاہ رہے تھے،اسی اثناء میں ایک اور خاتون بھی اپنی گاڑی اسی گلی میں لیجانے کی خواہش مند تھیں اور انہوں نے اپنی گاڑی عین گلی کے نکڑ پر روک دی وہ شاید وہاں بھی نہ روکتیں لیکن آگے گاڑی ریورس ہوتی اُس گلی میں مڑ چکی تھی، اب گاڑی کواس گلی میں مکمل سیدھا ہونے کیلئے جگہ درکار تھی جو اُن خاتون صاحبہ نے اپنی گاڑی سے روک رکھی تھی۔ وہ صاحب کچھ دیر کوشش کرتے رہے کہ اپنی بھی اور اُن خاتون کی گاڑی بھی بچا کے اپنی گاڑی سیدھی کر لیں یا پھر وہ اِس کوشش سے اُن خاتون کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ خاتون! عقلِ عام کا استعمال کرتے ہوئے اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے کر لیں تا کہ سب کا وقت بچ جائے لیکن وہ خاتون اس پیغام سےیکسر بےنیاز تھیں یا پھر عقلِ عام ہی بہت عام نہیں ہوتی۔۔تنگ آ کر اُن صاحب نے گاڑی سے سر باہر نکال کر اُن خاتون سے التجا کی کہ محترمہ اپنی گاڑی محض چھے انچ پیچھے کر لیجیے تا کہ آپ بھی سکون میں آئیں اور باقی سب بھی۔
تین چار سال پہلے کی بات ہے کہ میں پنڈی کچہری چوک کےپاس پہنچا جہا ں سے مجھے سیدھا روات کی جانب جانا تھا کہ اچانک دائیں سائیڈ سے ایک خاتون انتہائی تیز رفتاری سے بائیں ایئرپورٹ کی جانب مڑنے کا اشارہ اور ہارن دیے بغیر میری گاڑی کے سامنے سے گزریں۔۔ وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ میں ہلکی سپیڈ پہ گاڑی چلا رہا تھا ورنہ بھیانک حادثہ ہو سکتا تھا اور غلطی خاتون نے ماننی نہیں تھی۔ہمارے علاقے میں ایک خاتون جنہوں نے شٹل کاک بُرقع پہنا ہوتا اوراکثر گاڑی چلاتے ہوئے دکھائی دیتی تھیں جنہیں دیکھ کر میں دور سے ہی حفاظتی تدابیراختیار کرتے ہوئے دائیں بائیں ہولیتا کیونکہ وہ خاتون کسی بھی وقت سڑک اچانک بغیر کسی وجہ کے بریک لگا کے گاڑی روک دیا کرتی تھیں جو ظاہر ہے حادثے کا باعث ہو سکتا تھا۔
خواتین گاڑی چلا رہی ہوں تو دُور سے ہی گاڑی کی حرکات ڈرائیور کا پتہ دے دیتی ہیں۔شہید جنید جمشید کسی ٹی وی شو میں آئے تو اُن سے سوال کیا گیا کہ آپ کیساتھ ایک متنازعہ بات منسوب ہے خواتین کے گاڑی چلانے کے حوالے سے(یاد رہے کہ یہ قضیہ اُن سےمذہب کی طرف مائل ہونے سے پہلے کا منسوب ہے) تو وہ ہنس دیے اور اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ یار میں خواتین کے گاڑی چلانے کے خلاف نہیں ہوں،بس اتنا ہے کہ وہ گاڑی چلانے سے پہلے سیکھ تو لیا کریں نا!
اسلام آباد میں کافی عرصہ پہلے آئی جی ٹریفک ایک سیمینار میں تشریف لائے اور تقریر کرتے ہوئے کہا۔۔ہماری جو بہنیں گاڑی چلاتی ہیں اُن سے بس اتنی گزارش ہے کہ جب کوئی غیرمعمولی بات سڑک پر پیش آ جائے تو اپنے ہاتھ پاؤں پھولنے نہ دیا کریں اور اپنے حواس پہ قابو رکھا کریں کہ ہاتھ پاؤں پھلانے سے حادثہ نہ بھی ہونا ہو تو بھی ہو جاتا ہے۔
اِسی ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا کہ ایک صاحب گھر بیٹھے ریڈیو سن رہے تھے اور اُن کی زوجہ گاڑی پر کہیں نکلی ہوئی تھیں۔ اُن صاحب نے ریڈیو پر اعلان سُنا کہ ایک گاڑی روڈ پر مخالف سمت میں تیزرفتاری سے چلتی جا رہی ہے لہٰذا لوگ محتاط ہو کر ڈرائیونگ کریں۔ اُن صاحب نے یہ سوچتے ہوئے کہ اُن کی بیگم شاید گاڑی میں ریڈیو نہ سُن رہی ہوں،اپنی بیگم کو فون ملایا اور صورتِحال سے آگاہ کرتے ہوئے گاڑی احتیاط سے چلانے کی تلقین کی تو محترمہ نے جواب دیا کہ آپ ایک گاڑی کی مخالف سمت میں چلنے کی بات کر رہے ہیں،یہ بیوقوف تو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔خاتون نے فون بند کر دیا اور صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے، اُن کو شاید بیگم کی بجائے اپنی گاڑی کی فکر پڑ گئی تھی۔
میں بھی خواتین کے گاڑی چلانے کے خلاف نہیں ہوں بس اتنی سی بات عرض کرنی ہے کہ گاڑی چلانے سے پہلے سیکھ تو لیا کریں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(پسِ تحریر: خواتین سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو feminist نظر سے نہ دیکھیں اور تحریر سے محظوظ ہوں)

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply