سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا /عرفان شہزاد

انسان کے جذبات و احساسات جب اپنی تسکین کے لیے حد درجہ بے تاب ہوتے ہیں تو وہ پتھر کو خدا مان کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے، بچوں اور جانوروں سے جنسی تسکین حاصل کرتا اور کسی معمولی شخص سے ایسا عشق پالتا ہے کہ اسے دیوی یا دیوتا کے استھان پر بٹھا لیتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی میں شخصی، اخلاقی اور علمی لحاظ سے کوئی کشش نہ تھی۔ مگر وہ ایسے وقت میں سامنے آئے جب سیاست و حکومت سے مسلمان باہر ہو چکے تھے۔ عوامی مناظروں میں اسلام پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے۔ عوام کو ایک رہنما درکار تھا جو انھیں مقصد دیتا، سمیٹ کر رکھتا اور سائبان بنتا۔ مرزا صاحب کی واحد خوبی ان کا حد درجہ اعتماد تھا۔ پیغمبرانہ اعتماد سے کیے گئے ان کے دعاوی عوام کی ہاری ہوئی نفسیات کو اپیل کر گئے۔ اب لاکھ ان کی غلطی دکھائی جائے، ان کے پیروکار نہیں مانتے۔ اس کی وجہ علمی دلیل نہیں نفسیاتی تسکین ہے جو مرزا صاحب سے حاصل ہوتی ہے اور ان کو تج دینے سے پھر بے تاب ہو جاتی ہے۔ یعنی مرزا نہیں تو پھر کون ؟ کوئی تو ہو جو اس اعتماد سے بولے کہ معلوم ہو خدا بول رہا ہے، وہ جو کہہ رہا ہے وہی حق ہے، وہی سچ ہے۔ علما اور محققین کا امکانی سچ اور امکانی حق، یعنی ہماری بات درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط ہونے کا بھی امکان ہے، یہ علمی بے اعتمادی ان کی نفسیات کی تسکین نہیں کرتی۔ اس لیے ان باتوں میں انھیں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔
اعتماد کی کمی کا شکار اور یقین دہانی کے لیے بے تاب عوام سیاست میں بھی اسی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہٹلر، مسولینی یا نپولین اور دیگر سخت گیر سیاسی رہنما اس لیے عوام کو بھا گئے اور وہ اس لیے ان پر فریفتہ ہوئے کہ انھوں نے ان کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی عظمت رفتہ کی بحالی کی بات کی، انھیں قومیت کے خبط عظمت میں مبتلا کر کے ان کی زخمی انا کی تسکین کی۔ عوام اپنے بھوکے پیٹ بھول گئے اور قومی عظمت کے حصول کی بے تابی میں وہ ان کھائیوں میں بے دھڑک گرنے پر تیار ہو گیے جو ان کے اولوا العزم مگر کوتاہ بین لیڈر ان کے لیے کھود رہے تھے۔
عوام کے لیے اہداف اتنے پرکشش تھے کہ وہ ان کے حصول کے لائحہ عمل کی تکنیکی تفصیلات اور نتائج کی ہول ناکیوں کو خاطر میں لانے کو کسی طرح بھی تیار نہ تھے۔ ایک جنون طاری تھا جس میں مرنے یا کامیاب ہونے کے علاؤہ دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔
پاکستان کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک مسلسل سیاسی عدم استحکام نے عوام کو بے اعتمادی اور غیر یقینیت کے مرض میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے لازمی نتائج کے طور پر سماجی نا انصافی اور طاقت ور کی من مانی نے ان کی عزت نفس چھین لی ہے۔ معیشیت کی بد حالی نے انھیں دنیا کی نظروں میں بے وقعت کر رکھا ہے۔
اس صورت حال میں جو بزعم خود مسیحا ان کے ان امراض کے علاج کا محض دعوی بھی کرے تو لوگوں کے ایک طبقے کا اس پر فدا ہونا قابل فہم ہے خصوصا وہ طبقہ جو روزگار کی غیر یقینیت کا شکار اور سماجی طور پر کمزور ہے۔ اس کے بعد یہ بحث ان کے لیے قابل اعتنا ہی نہیں رہتی کہ اس میں کوئی قابلیت ہے یا وہ اپنی نالائقی ثابت کر چکا ہے۔ جب تک اس کی زبان ان کی بے اعتمادی اور احساس محرومی کی نفسیاتی تسکین کرتی رہے گی کوئی دلیل کوئی نتیجہ اس لیڈر کی مقبولیت کو کم نہیں کر سکتا۔ سوائے یہ کہ ہٹلر مسولینی اور نپولین کی طرح وہ انھیں مکمل طور اس کھائی میں گرا دے جو اس نے اپنی کوتاہ بینی سے کھودی ہے۔
اس کے مقابل زمینی حقائق سے جڑے عام لیڈر جو چاہے ان کے پیٹ اور جیب بھرنے کی بات کریں، انھیں پرکشش معلوم نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ ان کی بے اعتمادی اور احساس محرومی کا علاج نہیں کرتے۔ وہ صرف میسر ذرائع سے حالات کو ممکنہ حد تک درست کرنے کی بات کرتے ہیں جس میں نفسیاتی تسکین کا کوئی سامان نہیں۔
انھیں اعتماد چاہیے جو اعتماد بھرے لہجے سے ملتا ہے چاہے وہ اعتماد بھرا لہجہ بے بصیرتی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply