• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مودی جی! تو کیسا شعبدہ گر ہے، کوئی کمال بھی کر ۔۔محمد ہاشم خان

مودی جی! تو کیسا شعبدہ گر ہے، کوئی کمال بھی کر ۔۔محمد ہاشم خان

 تشدد کو وہیں راہ ملتی ہے جہاں حکومت شامل ہوتی ہے۔جن ریاستوں میں پدماوت مظاہرین سرعام جمہوری حقوق و آزادی کو سرِدارچڑھا رہے ہیں وہ بی جے پی کی ’ہارڈکوراسٹیٹ‘ ہیں۔دہلی میں حکومت کیجری وال کی ہے لیکن ’لاء اینڈ آرڈر‘ مرکز کے ہاتھ میں ہےیعنی کہ کیجری وال ’بادشاہِ بے ملک‘ ہیں۔ ۲۰۰۲ ءمیں جب گجرات میں مسلم نسل کشی شروع ہوئی تو دگ وجے سنگھ نےجو کہ اس وقت مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ تھےایک بہت پتے کی بات کہی تھی کہ ’اگر کسی حادثےپر ۴۸ گھنٹے کے اندرقابو نہیں پایا جاسکا تو یہ سمجھ لیں کہ اُس میں حکومت شامل ہے۔‘ اِس بیان کو اُن تمام واقعات پر منطبق کیا جاسکتا ہے جہاں حادثات و فسادات ہوتے ہیں اور فسادی گردن کشیدہ ،سینہ کشادہ ،کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے ہیں ۔

خواہ سکھ مخالف فسادات ہوں، ممبئی اورگجرات کےفسادات ہوں ،پدماوت کے خلاف پُرتشدد مظاہرہ نیز دیگرسماجی،جنسی و مذہبی جرائم وغیر ہ وغیرہ وغیرہ۔ پدماوت پرمظاہرین کو مثلِ شترِ بے مہارچھوڑ کر حکومت ہند نے ایک تیر سے دوشکار کیا ہے، ایک تو سپریم کورٹ کوماورائے متن یہ پیغام دیا ہے کہ آپ کے فیصلے کی ایسی کی تیسی، حکومت کرنا ہمارا کام ہے ،نظم ونسق کو برقراررکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم ایسے ہی کریں گےایسے ہی رہیں گے۔دوم راجپوت برادری اور ساتھ ہی اُن تمام ہندوؤں کو جو ’لوجہاد‘ کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں یہ کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ ایسے کسی بھی ’شرانگیزمواد‘ کو باہر نہ آنے دیں جس سے اُن کےفلسفۂ ’لوجہاد‘ کی روح مجروح ہوتی ہو۔

علیٰ ہذالقیاس پدماوت پر جو کچھ ہورہا ہے اُس میں حکومت شامل ہےاور اس پر حیرت میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ حیرت تو اُس وقت ہونی چاہیے تھی جب حکومت کی طرف سے مظاہرین کو روکنے کےلئے سنجیدہ اقدامات کئے جاتے۔اس وقت حیرت ہونی چاہیے تھی کہ یہ کیسی حکومت ہے جو اپنے ’پریوار‘ کوبھی احترام ِ آئین و انسانیت کے دائرے میں لانا چاہتی ہے۔یہاں تو قاتل، شاہد،منصف سب کچھ وہی ہیں سو خون کا دعویٰ باطل ٹھہرتا ہے اور افسوس کا اظہار بھی کہ جب بے حسی و بے شرمی،شجاعت و پامردی،بزدلی ورُوباہی یہ سب اپنی انتہا کو پارکرجاتی ہیں تو افسوس ،انفعال اور پشیمانی ایک بے معنی لفظ اور بے مقصد موت ٹھہرتی ہے۔اگر کوئی غیرت بچی ہے تو فوراً گھول کر پی لیں اور غسل خانے میں چلے جائیں کہ فی الحال ہم ’ہندوراشٹر‘ میں جی رہے ہیں اوریہاں تاریخ وہی لکھی اور پڑھائی جائے گی جو ’ہندوراشٹر کے متوالوں کے ذہنی و نفسیاتی عارضے کوجلابخشے۔‘وہ تاریخ تو بالکل نہیں جس میں ایک جابروظالم اور غیر رومانٹک مسلم بادشاہ ایک ہندومہارانی کے عشق اور پھرحصول کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے۔ایسی تاریخ بالکل نہیں جو مذہبی نفسیاتی مریضوں کی جنسی طاقت کو مفلوج کردے ۔

بھلا ’لوجہاد ‘ کے ایسے شاندار دور میں ایسی فلم کیوں کرریلیز ہونے دی جائے جوبین المذاہب جنسی روابط میں تلذذ کشید کرنے والوں کے دل کے عمیق ترین نہاخانوں میں مضمر نفسیاتی تسلط کے مرض کاعلاج نہیں۔ وہ کوئی اور ہوں گے جو محبت کو محبت سمجھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو بین المذاہب محبت کو جنسی جنگ سمجھتے ہیں اور پدماوت کو فلم نہیں ایک جنسی جنگ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔یہ اُس اجتماعی ہندویانہ نفسیات پر یلغار ہے جو آزادیٔ ہند کے بعد کی تاریخ میں ہر طرف صرف اپنا تسلط اور اپنی فتح دیکھنا چاہتا ہے۔ انگریز اور ماقبل کی تاریخ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ وہ تاریخ ہندوؤں کے ثقافتی بحران اور شکست و ریخت سے عبارت ہے۔ لہٰذا پدماوت کے خلاف مظاہرہ اِس لئے نہیں ہورہا ہے کہ اُس میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے کیوں کہ نہ تو یہ فلم کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی دستاویز اور ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا گیا ہےبلکہ اس کی اصل وجہ خالص مذہبی نفسیاتی تسلط سے لذّت کشید کرنے میں مضمر ہے۔

ایک تھا راجہ !نہیں،نہیں! ایک تھا مسلم بادشاہ، جس کا نام تھا علاء الدین خلجی اور ایک تھی رانی جس کا نام تھا ’پدمنی‘۔نہیں یہ والی تاریخ منظور نہیں، ایسی کوئی تاریخ نہیں اور اگر کبھی تھی تو یہ ہماری جنسی تسلط و برتری سے مریضانہ لذت کشید کرنے کے فلسفے کے خلاف ہےسو ناقابل قبول ہے۔سنجے لیلا بھنسالی کی یہ والی تاریخ اُنہیں منظور نہیں کہ خلجی دور میں کوئی ایک ’لوجہاد‘ ہوا تھا اور اُس میں راجپوت برادری اپنی عصمت کا تحفظ نہیں کرسکی تھی،اگر وہ باجی راؤمستانی جیسی کوئی اور فلم بناتے جس میں راجہ ہندو اور رانی مسلمان ہوتی تو ’لوجہاد ‘ کے فلسفے کی ترویج و تشویق میں کچھ مدد بھی ملتی۔بھنسالی نے غلط وقت پر تاریخ و سماج کا توازن برقراررکھنے کی کوشش کی ہے اور اس توازن کو ختم کرنے کے لئے یہ شرپسند کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بچوں کے اسکول بس کو ہدف بنانے سے اگر اُن کےمقاصد کی تکمیل ہوتی ہے تو ایسی بےشمار بسیں وہ نذرآتش کرسکتے ہیں جو گروگرام میں اُنہوں نے کیا ہے۔ تو کیا ایسا ہوتا رہے گا؟کب تک آپ خاموش رہیں گے اور کیوں رہیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سیکولر مزاج ہندوؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ فی الحال دلت ، عیسائی اور مسلمان ہی اس زعفرانی آندھی کی زد میں ہیں لیکن وہ وقت بھی جلد آئے گا جب اُن کا سیکولر ہونا ’ہندواِزم‘ کے لئے کافی ثابت نہیں ہوگا۔یہ کوئی وقتی سماجی انحراف نہیں تاریخ کا ایک بڑاسچ ہے جو حالت ِ افزائش ونمو میں ہے۔اگر یہ ہذیانی تشددپورے ملک کا وصف نہیں بنتا جارہا ہے تو پھر ہم جودیکھ رہے ہیں وہ جھوٹ ہے کیا؟ایک ارب پچیس کروڑکی آبادی اگر چند شرپسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے تو پھر دوہی باتیں  ہوسکتی ہیں ، اس آبادی کی انسانی غیرت مرچکی ہے یا پھروہ بھی مجرموں میں شامل ہے۔سو یہ کہنا کہ پورا ملک ایسا نہیں ہے ایک رٹارٹایا ہذیان ہےاور ہذیان علاج چاہتا ہےچاہے میرا ہو یا آپ کا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply