اسلام میں تفریح کا تصور

انسان کی تخلیق ہی کچھ اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ انسان مسلسل کام اور لگاتار ایک ہی روئٹین سے نہ صرف تھک جاتا ہے بلکہ اکتا جاتا ہے۔ چنانچہ راحت کے اوقات کی تلاش اور روزہ مرہ کے معمولات میں تبدیلی کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے۔ فرصت کے اوقات اور مختلف تقریبات اور مواقع انسان کو جسمانی راحت اور ذہنی آسودگی فراہم کرتے ہیں اور انسان کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بہترین وقت گزرانے کا موقع بھی میسر آتاہے ۔
مختلف تقریبات کوجس طرح فرد کی زندگی میں اہمیت حاصل ہے اسی طرح ایسی تقریبات قوم کی مجموعی زندگی کے لیے بھی اہم اور ضروری ہیں ۔ یہ تقریبات اور اجتماعیت ہی ہیں جو معاشرے کے افراد کا باہم ربط و تعلق پیدا کرتے ہیں اور افراد کا باہم تعلق ہی معاشرے اور معاشرتی زندگی کی حقیقی بنیاد ہے ۔ چنانچہ انہی بنیادوں پر تمام اقوم اور ممالک مختلف اوقات میں مختلف تقریبات، میلوں ، نمائشوں اور تہواروں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری اور مقامی سطع پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ان تقریبات کی آمد کے ساتھ ہی پاکستانی قوم کی طبقاتی تفریق مزید کھل کر سامنے آتی ہے ۔ لبرل/سکیولر حضرات بلا تخصیص تمام تقریبات بنانے کےقائل ہیں جبکہ مذہبی حضرات مختلف تقریبات کی تاریخی حیثیت پہ اعتراض کرتے ہیں ۔
کسی بھی قوم کی تنزلی تب شروع ہوتی ہے جب قوم میں باہم اتفاق و اتحاد کا فقدان ہو ۔ ہمارے لبرل اور سکیولر حضرات کا المیہ یہ ہے کہ وہ یورپ اور مغربی نظام سے متاثر ہیں جن کی اسلام پر تحقیق اور معلومات نہائیت خفیف اور سطحی ہے اور ان کا اسلام کے متعلق تصور بھی نہائیت محدود ہے ۔لہٰذا ان کے نزدیک اسلام گویا ایک قدامت پسند مذہب ہے جس میں ایسی کسی سرگرمی کی کوئی کنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف مذہبی حضرات کی جانب سے بھی فقط اعتراض ہی کیا جاتا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی اعتراض و احتجاج سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی اجتماعیت کی حقیقی صورت کو واضح کیا جائے ۔ چنانچہ اس تحریر میں اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلام میں تفریح کے تصور کو واضح کیا جائے گا ۔
اسلام کی اعجازی شان یہ ہے کہ اسلام میں زندگی کے ہر ہر گوشے اور ہر ہر شعبے کے متعلق تعلیمات موجود ہیں ۔ قران مجید کسی ایک مخصوص مضمون کے ساتھ نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن مجید کے مطابق اللہ تعالی ٰنے محمد ﷺ کو آیات(دلائل و براہین ) تزکیہ(زندگی سنوارنا ) ،کتاب (احکام)اور حکمت عطا کی جبکہ اسکے برعکس سابقہ آسمانی کتب مخصوص مضامین کے ساتھ نازل ہوئی یعنی زبور فقط حمدباری تعالیٰ ، تورات فقط احکام اور انجیل حکمت پر مشتمل تھی ۔ اسلام کی دوسری اعجازی شان یہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک ایک زیر و زبر اور محمد ﷺ کا ایک ایک قول و فعل پوری طرح محفوظ کر لیا گیا تو گویا یہ نفاذ اسلام کی آسمانی تدبیر ہے جبکہ سابقہ کسی نبی یا رسول کے بچپن سے لیکر وصال تک کے حالات زندگی محفوظ ہیں اور نہ سابقہ کسی آسمانی کتاب کے بارے میں پوری سند سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں زندگی کے ہر ہر گوشے کے متعلق تعلیمات موجود ہیں تو یہ نہ کتابی بات ہے اور نہ الفاظ کی حسن تقریب بلکہ فی الواقع حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اسلامی تعلیمات سے خالی نہیں ہے ۔ یہ اسلام ہی کا خاصا ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے انسانی فطرت ، جذبات اور خواہشات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسلامی فوج ( لشکر ) میں ہر چار ماہ بعد چھٹی کا اہتمام کیا ۔اسلام نے مسلمانوں کی تفریح اور باہمی میل جول کے لیے عیدین کی صورت میں سال بھر میں چھ دن مخصوص کیے جو چودہ سو سالوں سے پوری اسلامی دنیا میں مذہبی تہوار کے نام سے منائے جاتے ہیں اور منائے جاتے رہیں گے ۔اسلام میں عیدین کا باقاعدہ اہتما م کیا جاتا ہے اور یہ اسی اہتمام کی ایک جز ہے کہ ان دونوں ایام میں روزے رکھنے سے رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔ اگرچہ معاشرے کا ہر فرد اپنی استطات کے متعلق مختلف تہوار مناتا ہے لیکن یہ اسلامی ضابطہ حیات اور تصور معاشرت و اجتماعیت ہی کا خاصہ ہے کہ ایک طرف تو ان تہواروں کو منانے کے عمومی اصول طے کیے گئےہیں اور دوسری طرف اس بات کی بھی پر زور تاکید کی گئی ہے کہ معاشرے کے محروم افراد کو بھی خوشیوں میں شریک کیا جائے ۔
اسلام ایسی کسی تفریحی سرگرمی سے قطعا ًنہیں روکتا جو معاشرے کے لیے کسی بھی لحاظ سے مضر نہ ہو ۔چنانچہ صحیح بخاری کی ایک روایت جسے امام بخاری ایک سے زائد مقامات پر لائے ہیں میں ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ : ایک دن نبی اکرمﷺ میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بعاث کی نظمیں پڑھ رہی تھیں ، آپﷺ بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ دوسری طرف پھر لیا ، اس کے بعد صدیق اکبر آئے مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں ؟ آخر نبی اکرمﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جانے دو ، خاموش رہو۔ پھر جب صدیق اکبر دوسرے کام میں مشغول ہو گئے اور میں نے اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں ۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث جو حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابو بکر !ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے ۔
صیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ یہ عید کا دن تھا ، حبشہ سے کچھ لوگ تیروں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب یا خود میں نے کہا یا نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی تو میں نے کہا ہاں ! پھر آپﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر دیا ۔ میرا رخسار آپ ﷺ کے رخسا ر پر تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی (ارفدہ )یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا بس میں نے کہا جی ہاں ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جاؤ۔
شادی اپنی ہو یا اپنوں کی شادی کے لمحات انسانی زندگی کے چند حسین ، پر مسرت اور یادگارلمحا ت ہوتے ہیں ۔ اسلام اگرچہ شادی میں سادگی کا درس دیتا ہے لیکن سادگی سے قطعا ًیہ مراد نہیں کہ خوشی کا بالکل اظہار نہ کیا جائے بلکہ اسلام صرف لغور سوم ، اسراف اور نمود و نمائش سے روکتا ہے صحیح بخاری میں کتاب نکاح میں ربیع بنت معوز ابن عفراء سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ تشریف لائے اور جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی آنحضرت محمد ﷺ اندر تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے ، اسی طرح جس طرح تم میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو ، پھر ہمارے ہاں کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے باپ اور چچا جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے انکا مرثیہ پڑھنے لگیں اتنے میں ان میں سے ایک لڑکی نےپڑھا ہم میں ایک نبی ہیں جو ان باتوں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ ہونے والی ہیں ، حضرت محمدﷺ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو اس کے سوا جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو ۔
صحیح بخاری کی ہی ایک اورروایت میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دلہن کو ایک انصاری مرد کے پاس لے گئیں تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا عائشہ !تمہارے پاس دف بجانے والا نہیں تھا ، انصار کو دف پسند ہے ۔
تحائف کا لین دین بھی معاشرتی زندگی کے لیے نہائت سود مند ہے جو افراد میں باہمی الفت ، محبت اورپیار بڑھاتا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ اسلام نہ صرف تحائف کے لین دین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ تحائف کو محبت کے فروغ کا ذریعہ قرار دیتا ہے ۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ میری دو پڑوسن ہیں تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہئیے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے قریب ہو ۔ نبی اکرم ﷺ کو بھی زندگی میں صحابہ و صحابیات کی جانب سے بےشمار تحائف بھیجے جاتے تھے جنہیں آپ نہائیت خوشدلی سے قبول کیا کرتے تھے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہدیہ قبول کر لیا کرتے تھے لیکن اسکا بدلہ بھی دیدیا کرتے تھے ۔
تحائف کی طرح دعوت و طعام سے بھی معاشرے کے افراد میں باہمی میل جول کو فروغ ملتا ہے اور افراد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ۔ اسلام میں نہ صرف دعوت و طعام کے بے شمار فوائد و فضائل بیان ہیں بلکہ ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرنے کی خصوصی تاکید بھی کی گئی ہے چاہے وہ کس قدر چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ۔ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا اگر مجھے بکری کے کھر( پاؤں) کی دعوت دی جائے تو میں اسے بھی قبول کروں گا اور اگر مجھے وہ کھر بھی ہدیہ میں دیے جائیں تو میں اسے قبول کروں گا۔
متذکرہ بالا احادیث سے یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اسلام قطعاً قدامت پسند مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام میں تفریخ کا تصور بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ایسی کوئی بھی تقریب ، اجتماع یا مخصوص دن جس کا مقصد عوام کے مختلف طبقات کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہو یا عوام کی تربیت و اصلاح کرنا ہو کسی طور خلاف اسلام نہیں ہیں بلکہ قومی تربیت و اصلاح اور رہنمائی تو اسلام کے تصور اجتماع کا خاصا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مستقل اجتماعات یعنی عیدین، حج اور جمعہ میں خطبات ایک لازمی جز ہی حیثیت سے شامل ہیں ۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply