انفارمیشن وارفئیر اور ہمارے نوجوان..عبداللہ قمر

 ایک وقت تھا    کہ  لوگ فکری  اغواء  کے  لفظ سے  ناآشنا تھے مگر اب یہ اصطلاح عام ہو چکی  ہے کیونکہ  اِکیسویں صدی میں جہاں  دنیا میں  بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہاں جنگی حکمتِ عملیاں بھی  حیران کن تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئیں۔ ایک  وقت ایسا بھی  تھا  جب ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ، مَردوں کو قتل کر دِیا جاتا  عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جاتا۔مگر اب   قو موں کے اَذہان و قلوب پر فتح حاصل کرنے کی جنگ ہے، اب نظریات کے غلبے کی جنگ ہے۔وہ دور گزر گیا جب  صرف مسلح افراد ہی میدانِ جنگ میں اترا کرتے اور اپنی قوم قبیلے کے لیے لڑتے تھے  اب وہ زمانہ ہے کہ قوم کا  ہر اِک فرد حالتِ جنگ میں ہے اور  دشمن کا ہدف بھی۔ہم سب گزشتہ ایک لمبے عرصے سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ دنیا اس وقت “میڈیا  اینڈ انفارمیشن وار” کے  دور میں داخل ہو چکی ہے۔دنیا کے بڑے بڑے ممالک  اس جنگ میں بے بہا وسائل جھونک رہے ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہ جنگ لڑ  بھی رہے ہیں۔برطانیہ جس کو ہمارے سادہ لوگ خاموش ملک تصور کرتے ہیں ،نے 2015 کے اوائل سے 77 بریگیڈ کے نام سے باقاعدہ ایک بریگیڈ  تشکیل دے رکھی ہے جو کہ جدید میڈیا اینڈ انفارمیشن وار لڑ رہی ہے۔ادھر ادھر کی بات کیے بنا اگر ہم اپنے دشمن بھارت ہی کو دیکھ لیں جس نے انفارمیشن وار کے لیے  سات ارب روپے مختص کیے ہوئے ہیں ۔جن سے پاکستان کے خلاف میڈیا، سوشل میڈیا، فلمیں، ڈرامے اور کتابیں الغرض  سب کچھ ہی  استعمال ہو رہا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا سائٹس پر بیٹھے بہت سے لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

اگر قارئین کو یاد ہو ،کچھ عرصہ قبل بلاگرز کا مسئلہ بنا تھا کہ چند لوگوں کو اٹھایا گیا جو مختلف ویب سایٹس اور سوشل میڈیا کا استعمال کر تے اسلام اور پاکستان مخالف  مواد پھیلانے کا کام کر رہے تھے۔اس کے بعد ابھی چند روز قبل  محترمہ مریم نواز صاحبہ نے میڈیا ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا  جس میں خطاب کرتے ہوئے  انہوں نے  بھی اسی قسم کی  بات کی ۔انہوں کہا کہ ہمارے سوشل میڈیا ورکرز کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے مگر اب ہم ان کا ڈٹ کر دفاع کریں گے۔ساتھ ہی اپنے والدِ محترم نا اہل وزیرِاعظم  نواز شریف صاحب  سے اس بات کا مطالبہ بھی کردیا کہ اگر اب کوئی ان سوشل میڈیا ورکرز پر ہاتھ ڈالے  تو ان کے خلاف میاں نواز شریف سخت ایکشن لیں ۔یہ مطالبہ انتہائی حیران کن لگا   کہ خیبرپختونخوا کے علاوہ تمام صوبوں اور مرکز میں تو  آپ ہی کی  حکومت ہے  پھر  کس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔میاں نواز شریف صاحب نے بھی دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ تم اتنی بڑی فورس بن جاؤ کہ مخالفین آپ سے خوف کھائیں۔ اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ میاں صاحب کے مخالفین کی لسٹ میں پی ٹی آئی کے علاوہ کون لوگ سرِ فہرست ہیں اور ان کی سوشل میڈیا فورسز کن کے خلاف کام کرتی ہیں اور اس  میں کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہوتا ہے۔

یاد  رہے یہ انہی  میڈیا سیلز کے ورکرز کی بات کی جا رہی  ہے جن سے متعلق چند ماہ قبل مریم صاحبہ ایک بیان میں یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ میرا ان سوشل میڈیا سیلز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔آج جب ہم اپنے سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ماسوئے یاس، ناامیدی، بے یقینی، پاکستان مخالف پروپیگنڈہ ، سیاستدانوں کی آپسی تکرار، سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی ایک دوسرے کو گالی گلوچ اور افواجِ پاکستان کے خلاف  بکواس کچھ نظر نہیں آتا۔آج جب پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خلاف برسرِ پیکارہے اس وقت سوشل میڈیا کا ذمہ درانہ اور مثبت استعمال بہت ضروری ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کا پروپیگنڈہ بہت شدید ہے اور کچھ ہمارے لوگ بھی میر جعفر اور میر صادق کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ابھی حال ہی میں  بھارت نے ایک “ایف ایم” چینل کھولا ہے جس میں وہ بلوچی زبان میں پروگرام نشر کریں گے تاکہ وہ ہمارے بلوچی بھائیوں کو پاکستان کے خلاف اکسا سکیں۔تاکہ پاکستان جو اس وقت شاہراہِ ترقی پر تیزی کے ساتھ اپنی منازل طے کر رہا  ہے اسے اس طرح کی تحریکیں کھڑی کر کے روکا جا سکے۔ پاکستان کی بائیس کروڑ عوام میں سے سوشل میڈیا صارفین صرف چار کروڑ بیس لاکھ ہیں۔لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ ان میں سے صرف ایک لاکھ ایسے ہیں  جو میڈیا  وار میں اپنا کردار ادا کر رہے اور باقی لوگ سوشل میڈیا محض لطف اندوز ہونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو براہِ راست دشمن کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ دوسری جانب  بھارت کے بیس کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر برسرِ پیکار ہیں۔ لیکن پھر بھی اللہ کی مدد دیکھیں کہ بیس کروڑ ساٹھ لاکھ کے مقابلے  میں مٹھی بھر لوگ ہیں لیکن راجناتھ سنگھ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ پاکستان اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کو نقصان پہنچانا بند کرے۔ اس وقت پاکستان کے اندربہت سی سوشل میڈیا ٹیمیں موجود  ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تشکیل دی ہیں  مگر چند ٹیمیں ایسی بھی ہیں جو کسی سیاسی جماعت کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے جذبہ حب الوطنی کے تحت   کام کر رہی ہیں جن میں ٹیم گرین ، پازیٹو پاکستان سائبریگیڈ، پاکستان سائبر فورس اور ہم سب کا پاکستان جیسی ٹیمیں شامل ہیں۔ یہ وہ  چند لوگ ہیں جو اس محاذ پر دشمنانِ پاکستان کے خلاف ایک منظم انداز کے ساتھ بر سرِ پیکار ہیں۔اس وقت جب پاکستان کو عارضی طور پر مشکلات کا سامنا ہے  طلبا  تنظیموں اور یوتھ آرگنائزیشنز جس میں بہت بڑے بڑے نام  ہیں  جو کسی سیاسی جماعت کے لیے کام نہیں کرتے اور جن کا پاکستان کے اندر مضبوط نیٹ ورک بھی  ہے مثلاً المحمدیہ سٹودنٹس، پازیٹو پاکستان انہیں چاہیے  کہ نا صرف سوشل میڈیا کی اہمیت پر کام کریں بلکہ طلبہ اور قوم کے نوجوانوں کو یہ بات سمجھائیں کہ میڈیا کے محاذ پر انہیں دفاعِ پاکستان کے لیے  کیا کردار ادا کرنا ہے۔کیونکہ یہ بات ایک مسلّم حقیقت ہے کہ نوجوان طبقہ یا طلبا ہی اس محاذ پر بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہمارے نوجوان اپنے  کردار کا  تعین کر لیں حصولِ منزل کے لیے  ڈٹ جائیں تو کوئی چٹان بھی ان شاہینوں کی پروازمیں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ہمیں سیاسی  لڑائیاں بند کر کے متحد ہونا  ہو گا تاکہ ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکیں۔اللہ پاکستان   کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply